حج جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا ایک ایسا خواب ہے جس کی تکمیل کی خواہش میں کئی آنکھیں بوڑھی اور کئی بند ہو جاتی ہیں۔ حج کے اخراجات اکثر اوقات ایک غریب آدمی کو زندگی کی آخری دہلیز پر لے جاتے ہیں۔ ضروریات زندگی اور مسائلِ روز مرہ انسان کو ایسے گھیرے رکھتے ہیں کہ حج کے لیے پیسے جمع کرنا محال ہو جاتا ہے اور جب پیسے جمع ہوتے بھی ہیں تو عمر کے اس آخری حصے میں جہاں ہڈیوں میں جان نہیں رہتی، جذبہ اور ہمت ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔ اکثر تو اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں اور حج ہو بھی جائے تواُتنا پُر لطف نہیں رہتا۔
تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد سبسڈی ختم کی تو حج مزید مہنگا ہو گیا۔ حج مہنگا ہوا تو غورو فکر شروع ہوا کہ یہ سستا کیسے کیا جائے۔ ایسے میں پاکستان کے ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ میاں عمران احمد نے دنیا بھر میں حکومتوں کے حج پروگرامز کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اسی دوران ملائشیا کا "تابونگ حاجی پروگرام" ان کی نظر سے گزرا۔ تابونگ ملائشین زبان کا لفظ ہے جسے انگریزی میں "مانیٹری فنڈ " یا "مانیٹری بینک" کہتے ہیں۔ اردو میں اسے حج فنڈ یا حج بینک کہا جا سکتا ہے۔
یہ تصور بڑا سادہ سا ہے۔ ایک شہری چند ہزار روپے کی چھوٹی سی رقم سے حکومت کے پاس مفت اکائونٹ کھلوائے گا۔ حکومت شہریوں سے جمع ہونے والی رقم کو علماء کی مشاورت سے حلال پراجیکٹس میں انویسٹ کرے گی۔ وہاں سے حاصل ہونے والا منافع شہری کے اکائونٹ میں جمع ہوتا رہے گااور جونہی حج کے لیے مطلوبہ رقم پوری ہو گی شہری کو حج پر بھیج دیا جائے گا۔ حج کے لیے مطلوبہ رقم کتنے عرصے میں مکمل ہو گی یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کتنے شہری اس منصوبے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور حلال پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کے لیے حکومت کے پاس کتنی بڑی رقم جمع ہوپاتی ہے۔ ملائشیا میں 1963 میں جب اس منصوبے کا آغاز ہوا تھا تو 1281 لوگوں نے 46ہزار 610 رنگٹ (ملائشین کرنسی) سے اکائونٹ کھلوائے یعنی آغاز میں زیادہ لوگ اس جانب مائل نہ ہوئے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ 2019 تک اس اسکیم کے تحت 93 لاکھ اکائونٹ کھل چکے تھے جن میں 73 ارب رنگٹ جمع ہیں۔
اب ملائشیا میں یہ معمول ہے کہ جونہی بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے نام کا مفت اکائونٹ کھلوا کر چند رنگٹ اس میں جمع کروا دیے جاتے ہیں۔ جوان ہو کر جونہی اس بچے کی شادی ہوتی ہے وہ انہی پیسوں سے حج کرنے چلا جاتا ہے۔ تبھی تو نوجوانی میں حج کرنے والے ممالک میں ملائشیا سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔
اس پروجیکٹ کو پروپوزل کی شکل دے کر جب میاں عمران احمد نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کو بھجوایا تو انہوں نے اسے اپنی کونسل کے ممبران کے سامنے رکھا اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کیا۔ کونسل کے دیگر ممبران نے بھی اس تجویز کو بہت پسند کیا اور بحث و مباحثے کے بعد اس کی منظوری دے کر وزارت مذہبی امور کو بھجوا دیا جہاں ایک سال کے مختصر عرصے میں تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر ایکٹ تیار کر لیا گیا۔ اب یہ مسودہ لاء ڈویژن کے پاس جا چکا ہے کابینہ سے منظور ہونے کے بعد اس پراجیکٹ پر باقاعدہ کام شروع ہو جائے گا۔ تجویز ہے کہ ابتدائی طور پر پاکستانیوں کو پچاس ہزار روپے سے اکائونٹ کھولنے کی دعوت دی جائیگی اور اگر زیادہ پاکستانیوں نے اس میں دلچسپی کا اظہار کیا تو پچاس ہزار سے اکائونٹ کھولنے والا ایک شخص تین سے چار سال میں حج پر جا سکے گااور اگر کوئی بچہ محض 5ہزار روپے سے اپنا اکائونٹ کھلوالے تو اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے اکائونٹ میں مطلوبہ رقم پوری ہو چکی ہو گی یا یہ بھی ممکن ہے کہ ضرورت سے زائد رقم جمع ہو چکی ہوجو حکومت اسے واپس کر دے گی۔ یوں یہ حج سستا نہیں بلکہ بالکل مفت تصور ہو گا۔ ملائشیا میں اب یہ نظام پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی جس کی باری آئے گی اسے حج پر بھیج دیا جائے گااور اگر باری آنے پر کسی کی رقم مطلوبہ سے کم ہے تو حکومت اپنے "تابونگ فنڈ" سے اس کی رقم پوری کر دیتی ہے۔
ملائشیا کے بعد اب انڈونیشیا، مالدیپ اور کچھ اور ممالک بھی اس اسکیم کو اپنا چکے ہیں اور ان کے یہ پروگرام کامیابی سے چل رہے ہیں۔ یقینا میاں عمران تو پاکستان میں حکومت کی توجہ اس جانب دلانے اور اس پر کام کرنے کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں ہی لیکن چئیرمین نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، کونسل کے دیگر ممبران، وزارت مذہبی امور، وزیر اعظم عمران خان اور اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے دیگر تمام افراد کی کوششیں بھی قابل تحسین ہیں۔
اس پروجیکٹ کے کئی دوسرے پہلو بھی ہیں، مثلا یہ کہ اس حج ایکٹ کے تحت چلائے جانے والے پروگرام کے ذریعے حکومت کے پاس ایک بڑی رقم جمع ہو جائے گی جو معیشت کی بہتری میں معاون ثابت ہو گی۔ اس رقم سے تعمیراتی صنعت سمیت کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری ہو گی اور یہ منصوبے پاکستان کے جی ڈی پی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ نئے پراجیکٹس شروع ہونے سے روزگار کے نئے مواقع پید ا ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لاکھوں لوگ نوجوانی میں حج کرنے کے قابل ہو جائیں گے اس کے لیے انہیں بوڑھے ہونے اور ریٹائرمنٹ کے بعد تک کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
اس حج اسکیم کو شروع کرنے کا کریڈٹ جہاں حکومت کو جاتا ہے وہیں اسے کامیاب بنانا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ ابتدا میں لوگوں کو اس منصوبے کی طرف قائل کرنا پڑے گا اور انہیں اعتماد دینا ہوگا۔ اگر حکومت فوری طور پر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو 2022 کا حج اسی اسکیم کے تحت ہو سکتا ہے، اللہ کے ہاں بڑا اجر تو ملے گا ہی 2023کے انتخابات میں بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔