پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو غیر اعلانیہ طور پر یہ کہہ کر گلیوں اور بازاروں میں دھکیل دیا گیا ہے کہ جائو اور اپنی قوتِ مدافعت خود پیدا کرو۔ طبی ماہرین کے اندازے کے مطابق ستر فیصد لوگ تو شاید یہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر باقی تیس فیصد کا کیا ہو گا؟ تیس میں سے بھی انتیس فیصد لوگ شاید بیمار پڑنے کے بعد تندرست ہو جائیں مگر ماہرین کے مطابق ایک فیصد اموات کا قوی امکان بحرحال موجود رہے گا۔ 22 کروڑ کا ایک فیصد 22 لاکھ بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان 22 لاکھ اموات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان کے اسپتال تیس فیصد یعنی 7 کروڑ مریضوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟
ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity) یا اجتماعی قوت مدافعت کی اصطلاح کا مطلب وائرس میں مبتلا ہو کر اس سے لڑنا اور اس کے خلاف اپنی قوت مدافعت کو پیدا کرنا ہے۔ اس تصور کے تحت وائرس مضبوط قوت مدافعت کے حامل لوگوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور کمزور لوگوں تک پہنچنے میں اسے دشواری ہوتی ہے۔ یوں وائرس کی چین ٹوٹ جاتی ہے، وائرس کا لائف سائیکل صحت مند افراد کے اندر ختم ہو جاتا ہے اور وہ دیگر لوگوں میں اپنے تباہ کن اثرات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے؟ وزیر اعظم کا یہ جملہ کہ ہمیں وائرس کے ساتھ جینا سیکھنا ہو گا اور اسد عمر کے اس بیان کہ کورونا کا علاج اسی صورت ہو سکتا ہے یا تو اس کی ویکسین دریافت ہو جائے یا پھر ستر فیصد لوگوں کے اندر وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو جائے، نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ حکومت غیر اعلانیہ طور پر ہرڈ امیونٹی جیسے خطرناک طریقۂ علاج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس حکمت عملی سے جہاں دیگر بہت سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی وہیں فواد چودھری نے اپنی وزارت کے ماتحت ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دے کر ان سے رائے لی۔ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال تھا کہ ہرڈ امیونٹی کا تصور نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں اس حکمت عملی کو عالمی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر مائیکل رائن نے تو سیدھا سیدھا کہہ دیا کہ انسان ریوڑ نہیں ہے کہ اسے حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے۔ ذرا سوچیے اگر پولیو وائرس کا علاج ویکسین کی بجائے ہرڈ امیونٹی پر چھوڑ دیا جاتا تو دنیا کی کتنی آبادی معذور ہو چکی ہوتی۔ لہذا ماہرین کے مطابق جب تک اس وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا۔
زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہرڈ امیونٹی کا تجربہ ایک ایسی قوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے (اگر کیا جا رہا ہے )جس میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں کورونا جیسی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے اور یہ ڈھونگ مال بنانے کے لیے رچایا گیا ہے۔ ایک ایسی قوم جسے بازار میں خریداری کی اجازت ملی تو اس نے سمجھا کورونا وائرس روئے زمین سے ختم ہو گیا ہے لہذا احتیاطی تدابیر کی کوئی ضرورت نہیں۔ بڑے شاپنگ مالز کے سوا ہر جگہ بے احتیاطی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ کپڑے کے ماسک بنانے والے چھوٹے مقامی کارخانوں کا کام ٹھپ ہو گیا ہے کہ اب کوئی ماسک پہننے کا تردد نہیں کرتا۔ لوگ اب یقین سے کہتے پھرتے ہیں دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہ کورونا وورونا کچھ بھی نہیں۔ ایسے یقین کے حامل لوگوں میں ہرڈ امیونٹی جیسے تجربے کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
چلیں پاکستان کے عوام تو اپنے رویوں کے اعتبار سے لاپروا ہیں مگر سویڈن جیسے ملک میں بھی اس کے اثرات اچھے نہیں نکلے۔ سویڈن وہ پہلا ملک تھا جہاں لاک ڈائون نہیں کیا گیا اور غیر اعلانیہ ہرڈ امیونٹی کا تجربہ کیا گیا۔ یہاں بوڑھے اور بیمار لوگوں کو تو گھر میں رہنے کی ہدایت کی گئی مگر نوجوانوں اور بچوں کے لیے تعلیمی ادارے، ریسٹورنٹ، کاروبار اور پبلک مقامات کھلے رکھے گئے۔ اعداد وشمار نے ثابت کیا کہ نتائج مثبت نہیں نکلے۔ سویڈن میں کورونا وائرس سے ہونے والی شرح اموات اس کے ان ہمسایہ ممالک سے زیادہ ہے جہاں لاک ڈائون نافذ ہے۔ سویڈن میں اب تک ڈنمارک سے تین گنا جبکہ فن لینڈ سے سات گنا زیادہ افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں کوئی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اجتماعی قوت مدافعت کا تصور کامیاب ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ حکومت کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ غیر معینہ مدت کے لیے لاک ڈائون نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانسپورٹرز، کاروباری طبقہ، چھوٹا کارخانہ دار اور دیگر حلقوں کے افراد کو ہمیشہ گھر میں بند نہیں رکھا جا سکتا۔ ایسے میں حکومت کا کردار محدود مگر عوام کا کردار نہایت موثر ہونا چاہیے۔ عوام کو یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ بازار جانے کی اجازت ملنے کا مطلب حکومت کا یہ اعتراف ہر گز نہیں کہ کورونا ختم ہو چکا ہے۔ جو احتیاطی تدابیر ایک فرد بطور اکائی کر سکتا ہے اس کا کوئی متبادل نہیں۔ ہر شخص اگر اپنی جا ن کو محفوظ بنانے کے لیے احتیاط جاری رکھے تو منفی نتائج کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ کاروبار کتنے گھنٹے کے لیے کھولا جائے اس کے لیے میں پہلے دن سے اس بات کا حامی ہوں کہ اگر کھولنا ہی ہے تو کاروبار کو چوبیس گھنٹے کے لیے کھولا جائے اس سے بازار میں ہجوم پیدا نہیں ہو گا۔ پانچ بجے کی پابندی کے باعث صبح دس بجے لوگ بازارو ں میں امڈ آتے ہیں اس خیال سے کہ دکانیں بند ہو گئیں تو خریداری نہیں ہو پائے گی۔ لہذا سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت موزوں معلوم ہوتا ہے کہ جب بازاروں کو کھولناہی ہے تو زیادہ وقت کے لیے کھولیں۔ مگرخدارا احتیاط کادامن نہ چھوڑیں ورنہ ہرڈ امیونٹی کا تجربہ پاکستان جیسے ملک میں انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔