Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Panchwi Deal?

Panchwi Deal?

کیا دو دہائیوں میں یہ شریف خاندان کی پانچویں ڈیل ہے؟ پہلی ڈیل پرویز مشرف کے ساتھ کی گئی، دس سال کا معاہدہ کر کے شریف خاندان ملک سے باہر چلا گیا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ دس نہیں معاہدہ پانچ سال کا تھا۔ پانچ کا ہو یا دس کا، معاہدہ تو تھا۔ یہ شریف خاندان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سب سے بڑی ڈیل تھی۔

دوسری ڈیل چھ سال کے بعد ہوئی جب نواز شریف کو ملک میں واپس آنا تھا، بغیر ڈیل کے واپس آنے کی کوشش کی تو ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ ایسے میں سعودی شہزادوں کی مداخلت کے ذریعے ایک اور ڈیل کی گئی اور نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔

تیسری بار ڈیل کا شور اٹھا جب نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانا تھا۔ ان کے پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہوئے، حالت بگڑ گئی، کہا گیا ان کی زندگی کو شدید خطرہ ہے۔ اچانک سب نے دیکھا کہ تمام قانونی رکاوٹیں دور ہو گئیں، عدالت میں نیب اور حکومت دونوں نے کہہ دیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہمیں ان کے باہر جانے پر اعتراض نہیں۔ آن کی آن میں نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے، مریم نواز کا ٹوئیٹر خاموش ہو گیا، اپوزیشن ساکت ہو گئی، سڑکوں پر آنے کی باتیں، حکومت کے خاتمے کی ڈیڈ لائنز سب ختم ہو گیا، کہنے والوں نے دعویٰ کیا کہ ایک ڈیل تھی جو مکمل ہوئی۔

چوتھی بارمسلم لیگ نواز نے سب کو ورطۂ حیرت میں تب ڈال دیا جب انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی قانونی حمایت کر دی وہ بھی بغیر کسی پیش و پس کے۔ دوسری جماعتوں کو تو چھوڑیے خود مسلم لیگ نواز کے اندر بے چینی اور حیرت صاف دکھائی دیتی تھی کہ پارٹی اپنے اصولی موقف سے کیوں ہٹ گئی اور اپنی روایات سے ہٹ کر فیصلہ کیسے کر لیا۔ شور مچا کہ ڈیل ہو گئی ہے۔ اب ڈیل کا اکثر اوقات کوئی ڈاکومنٹ تو ہوتا نہیں کہ ایسا کہنے والوں کے دعوے کے تصدیق ہوتی مگر چند دن میں اتفاق یہ ہوا کہ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اور دیگر ایک ایک کر کے جیل سے باہر آ گئے۔

اب پانچویں ممکنہ ڈیل کا دعویٰ شیخ رشید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے بدلے مسلم لیگ نوا ز نیب کے کیسز سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے یا اس میں بڑی تبدیلی کی حمایت کا عندیہ شہباز شریف اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں دے بھی چکے ہیں۔ اگر شیخ رشید کادعویٰ درست ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے لیے اٹھارویں ترمیم کا معاملہ اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے کہ وہ اس کے لیے احتساب جیسے اصولی عمل پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو جائے گی؟ اس کی چارممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں

:-1 اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کا تعلق حکومت کی ان معاشی پالیسیوں اور مستقبل کے منصوبوں کے ساتھ ہے جس کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو ادائیگی کرنے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچتے ہیں کہ وہ اس سے قرضوں کی ادائیگی کر سکے اور کچھ حصے سے دفاعی ضروریات پوری کر سکے۔ اسی سے حکومت کی جیب خالی ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ڈویلپمنٹ فنڈ کے لیے بھی اس کے پاس کچھ باقی نہیں بچتا، لہذا حکومت کو ڈویلپمنٹ کے لیے قرض اٹھا کر گزارا کرنا پڑتا ہے، یوں حکومت پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ لہذا حکومت کا خیال ہے کہ اگر وفاق کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وفاق کمزور ہو گا جیسا کہ پچھلے دس سال میں ہوا ہے۔

-2 دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت اس بات پر قائل ہو چکی ہے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں نے ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر لی ہے۔ جہاں صوبوں کے پاس اختیار تو ہے مگر کارکردگی صفر۔ جس کے نتیجے میں بہت سارے شعبے بالخصوص تعلیم اور صحت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد ان شعبوں میں بدحالی کھل کر سامنے آ گئی ہے، معلوم ہوا ہے کہ پچھلے دس سال میں اس پر کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز موجود ہیں نہ یونیورسٹی و کالجز میں ریسرچ کا کوئی نظام۔ اس بیماری کی روک تھام نہ اسپتالوں کی سطح پر ہوسکتی ہے نہ یونیورسٹی کی سطح پر ریسرچ کے ذریعے۔ باقی شعبوں کا بھی برا حال ہے۔ ایسے میں حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اٹھارویں ترمیم نے دس سال میں مختلف اداروں کو بہتری کی جانب لیجانے کی بجائے تباہ کر دیاہے۔ یہ ترمیم ناکام ہو گئی ہے لہذا اسے رول بیک کرنا نہایت ضروری ہے۔

-3 تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عوام دس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے کہ اب صوبے پوری طرح با اختیار ہیں اور تبدیلی کی توقع بھی انہی سے کرنی چاہیے۔ نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ کراچی کے بلدیہ ٹائون میں کھڑا ایک ووٹر سڑکیں اور بسیں نہ ملنے کا ذمہ دار فیصل وائوڈا کو سمجھتا ہے اور عمران خان خان کی حکومت کو ناکام تصور کرتا ہے۔

-4 چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان تبدیلی کا وعدہ کر کے حکومت میں آئے۔ مگر وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ عوام کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے والے اصل اختیارات وزیر اعظم کے پاس نہیں وزیر اعلی کے پاس ہوتے ہیں، گویا وزیر اعظم تو نام کا وزیر اعظم ہے جس کی جیب بھی خالی ہے اور ہاتھ بھی۔ یعنی اٹھارویں ترمیم کے بعدوفاق میں حکومت بنا کر صوبوں میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔

ان تمام ممکنہ وجوہات کی بنیاد پر حکومت کا اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اس تناظر میں ایک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر شیخ رشید درست کہہ رہے ہیں اور واقعی پانچویں ڈیل ہونے جا رہی ہے تو کیا عمران خان صاحب احتساب پر سمجھوتہ کر لیں گے؟ وہ احتساب جس کا وعدہ کر کے وہ حکومت میں آئے تھے۔ وہ احتساب جس کے بغیر انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ وہ انصاف جس کے بغیر کوئی ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔