سمجھ سے باہر ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں خود مخمصے کا شکار ہیں یا دوسروں کو مخمصے کا شکار رکھناہی ان کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک ہی جماعت کے مختلف رہنمائوں کے بیانات آپس میں نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کا خیال ہے کہ حکومت کو گھر بھیج کر نئے انتخابات کرائے جانے چاہئیں تو دوسرے کا خیال ہے کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، ایک رہنما کا خیال ہے کہ عمران خان کی جگہ ان کی پارٹی ہی سے کسی دوسرے کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا دینا چاہیے تو دوسرے کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو پانچ سال سے پہلے ہٹائے جانے کا چلن درست نہیں، اس روایت کو ختم کرنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، باقی رہنمائوں کو تو چھوڑیے خود بلاول بھٹو کے اپنے بیانات آپس میں نہیں ملتے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے قبل بلاول کہتے رہے کہ ہم دھرنوں کے ذریعے حکومتوں کے خاتمے پر یقین نہیں رکھتے مگر نئے انتخابات ہی مسئلے کا واحد حل ہیں اور یہ کہ عمران خان کے گھر جانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے برعکس مختلف مواقع پر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ نظام کا تسلسل جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اپوزیشن کی سمت ہے کیا، ہے بھی یا نہیں؟
رانا ثناء اللہ نے تو بات ہی ختم کر دی، فرمایا مائنس ون کا مطالبہ تو ہم نے کیا ہی نہیں، یہ اصطلاح تو میڈیا نکال لایا ہے۔ یہی سبحان اللہ، اسے کہتے ہیں جوتیوں سمیت آنکھوں میں اترنا۔ خواجہ آصف کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی، انہیں چاہیے کہ اپنی پارٹی ہی سے کسی اور شخص کو یہ ذمہ داری تفویض کر دیں جبکہ احسن اقبال کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ نئے انتخابات کے علاوہ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اب بتائیے ایک ہی پارٹی کے تین اہم ترین رہنما تین الگ الگ بیانات دے رہے ہوں تواسے کیا کہا جائے۔
اپوزیشن کی منتشرالخیالی تو سمجھ میں آتی ہے مگر یہ سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو کیا ہو گیاہے؟ ایک بہت ہی سینئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار نے بجٹ پاس ہونے سے تین دن پہلے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کے لئے نمبر زپورے ہو گئے ہیں، اپوزیشن کو اس مقصد کے لیے اپنی گنتی سے اوپر تیرہ لوگوں کی ضرورت تھی لیکن اپوزیشن کے پاس پندرہ لوگ ہیں یوں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے والی ہے۔ چند دن بعد جب بجٹ پاس ہو گیا تو وہی تجزیہ کار ایک اور چینل پر فرماتے نظر آئے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اپوزیشن کا ہوم ورک مکمل نہیں ہے۔ پھر یہی صاحب اپنے پروگرامز میں مائنس ون، مائنس ون کا راگ لگاتے نظر آئے، لیکن گذشتہ روز اپنے ایک تجزیے میں فرما رہے تھے کہ اپوزیشن کا مائنس ون کا فارمولہ پٹ گیا ہے اس میں کوئی جان باقی نہیں۔ اپوزیشن کا مخمصے میں ہونا توسمجھ آتا ہے مگر صحافی؟
عمران خان پر تنقید تو ہر طرف سے ہو رہی ہے، خاکسار نے بھی اپنے گذشتہ کالم میں تبدیلی کے وہ تمام نعرے یاد دلانے کی کوشش کی تھی جو الیکشن سے پہلے لگائے گئے تھے۔ اپوزیشن کی حکومت پر تنقید اپنی جگہ لیکن اپوزیشن بھی تو بتائے کہ دوسا ل میں اس کی اپنی کارکردگی کیا رہی ہے، اگر دوسال میں حکومت اپنی سمت کا تعین نہیں کر پائی تو اپوزیشن بھی نہیں کر پائی، ایک ہی پارٹی کے اہم رہنما ایک جگہ پر بیٹھ کر ایک بیانیہ پر متفق نہ ہو پائیں تو اسے قابل رحم حالت ہی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی متحدہ اپوزیشن تو چھوڑئیے، قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ ن کے بڑے رہنما اس بات پر متفق نہیں کہ مائنس ون ہونا چاہیے یا پوری حکومت کو جانا چاہیے، نئے الیکشن ہونے چاہئیں یا حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں، تحریک عدم اعتماد لائی جانی چاہیے یا نہیں لانی چاہیئے۔ اپوزیشن کی جو جماعت اس ایک نقطے پر تصفیہ نہ کر پا رہی ہو وہ تگڑی اپوزیشن کا کردار ادا کیا کرے گی؟
حکومت کو گھر بھیج کر کسے کیا ملے گا، اس کا تجزیہ چنداں مشکل نہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ سے زیادہ کچھ حاصل نہ کر پائے گی۔ پنجاب میں مخدوم احمد محمود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیں تو پیپلز پارٹی کی جھولی خالی ہو جائے گی، یہ دو چار سیٹیں جو اب ہیں وہ بھی نہ رہیں گی۔ مسلم لیگ ن قیادت کے شدید بحران کا شکار ہے۔ نواز شریف باہر ہیں اورمریم خاموش۔ حمزہ شہباز اندر ہیں تو شہباز شریف منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات اور کیسز کی زد میں ہیں۔ دوسرے درجے کی قیادت کے اتفاق و یگانگت کا جو حال ہے اس کا ذکر تو میں اوپر کر چکا ہوں۔ الیکشن ہوئے تو نتیجہ شاید اس سے مختلف نہ نکلے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست پہلے ہی چند مخصوص علاقوں تک محدودہے، دوبارہ الیکشن ہوئے تو شاید اس بار بھی وہ اور ان کا خاندان اپنی نشست نہ جیت پائیں گے۔ اپوزیشن اس صورتحال سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے نہ تو وہ نئے انتخابات کے لیے کوئی ملک گیر مہم شروع کرے گی نہ تحریک عدم اعتماد لے کر آئے گی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس وقت جو لیے بیٹھی ہیں، موجودہ حالات میں وہ ان کے لیے بہترین ہے۔ مولانا کا معاملہ اگرچہ دوسرا ہے، بے چینی ان کی گفتگو سے عیاں ہے۔ پارلیمنٹ سے باہررہنا ان کے لیے حزیمت اور شرمندگی کا باعث ہے۔ مشکل مگر ان کے لیے یہ ہے کہ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
اپوزیشن بکھری بکھری دکھائی دیتی ہے، کمزور اور بے بس۔ دو سال میں ایک بار بھی اپوزیشن حکومت کے کسی غلط فیصلے کے سامنے دیوار بن کر کھڑی نہ ہوسکی اور خود کو طاقت ور ثابت نہ کر سکی۔ معلوم نہیں کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں خود مخمصے کا شکار ہیں یاتجزیہ کاروں کو مخمصے کا شکار رکھناہی ان کی سیاسی حکمت عملی ہے۔