پیٹرول ضرورت کے مطابق دستیاب ہے مگرمہنگا ہے، بجلی ضرورت سے زائد دستیاب ہے اور مہنگی ہے، گیس مہنگی نہیں ہے مگر ضرورت کے مطابق دستیاب بھی نہیں۔ توانائی کے ان تین شعبوں نے حکومت کو الجھا رکھا ہے، ایک جانب آئی ایم ایف کا دبائو ہے تو دوسری طرف عوام کا۔ معاملات اتنے پیچیدہ اور گھمبیر ہیں کہ ادراک ہونے کے باوجود حکومت کو راستہ سجھائی نہیں دیتا۔
سب سے پہلے بجلی کے مسئلے پر ایک نظر ڈالیے۔ اس وقت پاکستان کے پاس بتیس ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ سردیوں میں پاکستان کی ضرورت گیارہ سے بارہ ہزار میگا واٹ رہتی ہے تبھی حماد اظہر نے کچھ دن پہلے بیان دیا کہ پچھلی حکومتوں نے مہنگے اور ضرورت سے زائد بجلی کے معاہدے کیے جس سے کپیسٹی پیمینٹس بڑھیں اور گردشی قرضے میں اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ 2013 میں کپیسٹی پیمینٹس 185 ارب کی تھیں جو اب 800 ارب کے قریب پہنچ چکی ہیں اور 2030 تک 2500 سے 3000 ارب تک چلی جائیں گی۔ گردشی قرضہ بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ بجلی کی قیمت خرید اور قیمت فروخت میں ڈیڑھ سے دو روپے کے فرق کا ہونا ہے۔ یہ فرق بجلی کے ہراستعمال ہونے والے یونٹ کے ساتھ گردشی قرضے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
بجلی کے نظام میں جہاں انفراسٹرکچر، لائن لاسز اور چوری جیسے بے شمار مسائل ہیں وہیں اسحاق ڈار صاحب کی لائی گئی ایک پالیسی" ریونیو بیسڈ لوڈ شیڈنگ"کا بھی خوب دخل ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پالیسی لے کر آئے تھے کہ وہ علاقے جو بجلی کا بل ادا نہیں کرتے یا جہاں سے ریونیوکم اکٹھا ہوتا ہے وہاں بجلی کی زیادہ لوڈ شیڈنگ کی جائے گی۔ اب حکومت نے بجلی بنانے والے اداروں سے بجلی خرید کر ادائیگی کر دی لیکن وہ بجلی اپنے پاس رکھ لی اور ادائیگیاں نہ کرنے والے علاقوں تک نہ جانے دی تو اس سے حکومت کو فائدہ نہیں الٹا نقصان ہی ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجلی بیچنے کے بعد ریکوری کا بہتر نظام بنانے کے لیے زور لگایا جاتا، بجلی اپنے پاس رکھ کے ضائع کر لی گئی، فائدہ کسی کو بھی نہ ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی لے کر نہ آئی اورمحض اضافی بجلی کا شکوہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بجلی کی اوسط قیمت میں 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے بجلی اوسط 11 روپے 72 پیسے فی یونٹ تھی اب 17 روپے 83 پیسے ہے یعنی اس حکومت میں 6 روپے 11 پیسے فی یونٹ کا اوسط اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں گراوٹ، آئی ایم ایف کی شرائط اور گردشی قرضے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت حکومت بجلی کے بلوں میں 17 فیصد جی ایس ٹی، 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی، 45 پیسے فی یونٹ فنانشل کاسٹ سرچارجز اور 35 روپے ٹی وی فیس وصول کرتی ہے۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اس وقت عوام اور ادارے بجلی استعمال کرنے کے بعد 1.6ٹریلین روپے کے نادہندہ ہیں۔ ظاہر ہے ریکوری کا بہتر نظام بنانا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ پچھلے سال اگست میں اُس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے خوشخبری سنائی تھی آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے سے 800 ارب کا فائدہ ہو گااور یہ کہ اس کے عوام پر مثبت اثرات 9سے 12 مہینے میں آ جائیں گے۔ 14 مہینے ہو گئے ابھی تک تو مثبت اثرات نظر نہیں آئے۔
گیس کے شعبے کے مسائل بھی کم گھمبیر نہیں ہیں۔ پچھلے پندرہ سال سے ملکی سطح پر گیس کی پیداوار میں 9 فیصد کی شرح سے بتدریج کمی ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر میں نئے گیس کنکشن لگانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ شاید حکومت کی کوشش یہ ہے کہ گیس کی بجائے لوگ بجلی استعمال کریں جو ہمارے پاس ضرورت سے زائد ہے لیکن گیس سے بجلی پر شفٹ ہونا اتنا آسان نہیں۔ شنید ہے کہ اس سال سردیوں میں گیس کا بحران رہے گاکیونکہ پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ کو لیکوڈنیچرل گیس سپلائی کے لیے عالمی کمپنیوں کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں ملا۔ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے دسمبر اور جنوری کے لیے چار چار ایل این جی کارگوز کی خریداری کے لیے 11 اکتوبر تک بولیاں طلب کی تھیں لیکن اب تک کوئی بولی موصول نہیں ہوئی۔ پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی بولی نہ ملی ہو۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پچھلی کئی حکومتوں نے دوسرے ممالک کے گیس کے معاہدے کرنے پر زور رکھا لیکن پاکستان میں دستیاب وسیع ذخائر کی تلاش کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت سمیت کسی بھی حکومت سے جب سوال کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ان ذخائر کے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حساس علاقوں میں ہونے کے باعث باہر کی کمپنیاں یہاں آ کر کام نہیں کرتیں اور اگر انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے تو لاگت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے دوسرے ممالک سے گیس امپورٹ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ پیٹرول، گیس اور بجلی۔ توانائی کی ان تمام مصنوعات کی درآمد کے باعث پاکستان کا امپورٹ بل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہم پہلی ہی سہ ماہی میں اپنے ہدف سے اوپر جا رہے ہیں۔ ہماری برآمدات اور ریمیٹینسز مل کر بھی درآمدات کا مقابلہ نہیں کر پارہیں جو معیشت کے لیے پریشان کن ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چوری اور لائن لاسز کی وجہ سے گیس کاگردشی قرضہ بھی بڑھتے بڑھتے 534 ارب کا ہو گیا ہے اور نہ جانے کہاں جا کر رکے گا۔
اب رہی بات پیٹرول کی تو حکومت کے پاس بظاہر اس کی قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی اصل وجہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے سے زیادہ روپے کی قدر میں گراوٹ ہے۔ پیٹرول پر ٹیکسزاگرچہ کم کیے گئے ہیں لیکن کوئی بھی حکومت اپنے خزانے سے پیسے نکال کر پیٹرول میں ڈالنے لگے تو معیشت مزید دبائو میں جائے گی، کسی بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں۔ واحد حل مجموعی معاشی صورتحال میں بہتری کے نتیجے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہی ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا۔