نیب آرڈیننس مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ چھ اکتوبر کو ایک ایسا آرڈیننس لایا گیا جس پر کئی حلقوں سے تنقید بھی ہوئی اوراس کے کئی پہلوؤں پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ یہ آرڈیننس 25 روز تک بھی اپنا دفاع نہ کر سکا اور تیسری ترمیم اس کے ماتھے پر سجا دی گئی۔ صاف نظر آتا ہے چھ اکتوبر کو نیب آرڈیننس لاتے وقت ہوم ورک مکمل نہ تھا، تمام پہلوئوں پر تفصیل سے غور نہ کیا گیا تھا، ممکنہ رد عمل اور زمینی حقائق کو پرکھا نہ گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو تیسری ترمیم لانا پڑی جس سے اس آرڈیننس کی ساکھ مزید متاثر ہوئی، اس کا مذاق بھی اڑایا گیا اور حکومت کو سبکی الگ اٹھانا پڑی۔
چھ اکتوبر کو آرڈیننس آیا، دو ہی روز کے اندر اندر ہائوسنگ سوسائیٹیز میں عوام سے فراڈ کرنے والے عدالتوں کے پاس پہنچ گئے، استدعا کرنے لگے اب ان کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، ان کا کیس متعلقہ اداروں کو منتقل کر دیا جائے۔ یہی نہیں آصف زرداری بھی نیب عدالت کے پاس بریت کی درخواست لے کر پہنچ گئے، ان کا موقف یہ تھا کہ جعلی اکائونٹس کیس میں ان پر الزام کا تعلق پبلک منی یا عوامی رقم سے نہیں ہے مزید یہ کہ وہ اُس وقت پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں تھے لہذاانہیں اس کیس سے بر ی کر دیا جائے۔ ایسی درخواستیں آنے کے بعد حکومت کو اندازہ ہوا کہ آصف زرداری، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، ایسے کئی سیاستدان اور کاروباری شخصیات اس آرڈننس سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے لہذا تیسری ترمیم میں ایک بار پھر ہائوسنگ سوسائیٹیز اور مضاربہ سکینڈل میں ملوث شخصیات کے کیسز کو نیب کے تحت کر دیا گیا ہے۔
نیب اپنی چار سالہ کارکردگی نہایت قابل فخر انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے پچھلے چار سال میں ریکارڈ 532 ارب روپے کی ریکوری کی۔ تفصیل میں جائیں تو معلوم ہو گا اس میں زیادہ تر ریکوری ہائوسنگ سوسائٹیز میں عوام کے ساتھ فراڈ کرنے والوں سے کی گئی۔ اب چھ اکتوبر والے ترمیمی آرڈیننس میں جب ہائوسنگ سوسائیٹیز کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکالا گیاتو خدشہ تھا ایک آدھ سال میں نیب کے پاس دکھانے کو کچھ نہ بچے گا کیونکہ وائٹ کالر کرائم میں سیاستدانوں سے پیسے نکلوانے کا امکان تو تقریبا صفر ہی ہوتا ہے۔ اس "آفٹر تھاٹ" کے بعد تیسری ترمیم میں نیب کی جھولی میں کچھ نہ کچھ دوبارہ ڈالا گیا ہے تاکہ کارکردگی دکھانے کے لیے نیب کے پاس کچھ تو ضرور بچ جائے۔
نیب عدالت لاہور میں 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں شہباز شریف کے وکلاء نے عدالت سے کہا جناب نیا آرڈیننس آنے کے بعد آج کی سماعت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس آرڈیننس کے بعد شہادت ریکارڈ کرنے کے لیے عدالت کے اندر آڈیو وڈیو سسٹم کا نصب ہونا ضروری ہے۔ چونکہ عدالت میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں لہذا آج کی سماعت ملتوی کر دی جائے۔ شہبازشریف کے وکلا کی استدعا مانتے ہوئے سماعت پانچ نومبر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ مجھ سمیت کئی لوگوں نے سوال اٹھایا حکومت آرڈیننس میں قانون شہادت کو تبدیل کرنے کے بعد آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کا نیا قانون تو لے آئی لیکن عدالتوں کے کمروں میں عملی طور پر اس کا انتظام کیوں نہ کیا گیا۔
حکومت کو بھی اس کا خیال آیا کہ عدالتوں کا نظام اب کیسے چلے گا لہذا تیسری ترمیم میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ جب تک آڈیو وڈیو سسٹم انسٹال نہیں ہوتا پرانے طریقے سے ہی شہادت ریکارڈ کی جائے۔ اس شق میں ایک نہایت کمزور پہلو دوبارہ چھوڑ دیا گیا ہے، لکھا ہے کہ اگر آڈیو وڈیو سسٹم آنے کے بعد اس میں کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو خرابی دور ہو جانے تک پرانے طریقۂ کار کے مطابق ہی شہادتیں ریکارڈ کی جائیں گی۔ اس کا مطلب عام الفاظ میں یہ ہوا کہ اگر آڈیو وڈیو سسٹم ہے تو ٹھیک ورنہ ویسے ہی چلنے دیں جیسے چل رہا ہے۔ لہذا عملی طور پر آڈیو وڈیو سسٹم کو عدالتی نظام کا حصہ بنا کر بھی نہیں بنایا گیا۔ 6 اکتوبر کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ نیب کے دو دانت تھے دونوں نکال دیے گئے، ایک ملزم کو نوے دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار اور دوسرا نیب عدالت کے پاس ضمانت کے اختیار کا نہ ہونا۔ یعنی ناقابل ضمانت نوے دن۔
6 اکتوبر کے آرڈیننس میں نیب عدالتوں کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ ملزم کو جب چاہیں ضمانت دے سکتی ہیں۔ لیکن اس میں ایک سخت نکتہ شامل کر دیا گیا کہ ضمانت کے عوض ملزم کو اتنی رقم کے برابر ضمانتی مچلکے جمع کرانے ہوں گے جتنی رقم کا اس پر الزام ہے۔ اس بارے میں حکومتی نمائندوں نے کریڈٹ لینے کے انداز میں کہا دیکھئے اگر نیب عدالتوں کو ضمانت کا اختیار دیا گیا ہے تو یونہی نہیں دے دیا گیا بلکہ ضمانت کے عوض الزام کی رقم کے برابر شورٹی بانڈ لیے جائیں گے۔ اب حکومت کو ایک بار پھر خیال آیا کہ یہ تو نا انصافی پر مبنی قانون ہے، ایک ملزم جس پر ابھی صرف الزام ہے اور وہ الزام ثابت نہیں ہوا تو وہ اتنی بھاری رقم کے مچلکے کیوں جمع کرائے۔ لہذا تیسری ترمیم میں اس شرط کو ختم کر کے نیب عدالت کے جج کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ شورٹی بانڈ یا مچلکوں کی رقم کا خود تعین کرے جیسا کہ باقی کیسز میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ تیسری ترمیم میں چئیرمین نیب کو ہٹانے کا اختیارصدر کو دیتے ہوئے طریقہ وضع کیا گیا ہے کہ صدر مملکت سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے چئیرمین نیب کو ہٹا سکتے ہیں۔ تیسری ترمیم والے اس آرڈیننس کا اطلاق 6 اکتوبر سے ہو گا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران اگر کوئی ریلیف لینے میں کامیاب ہو چکا ہے تو وہ کالعدم ہو جائیگا۔
تیسری ترمیم آنے کے بعد اپوزیشن کا مجموعی ردعمل یہی سامنے آیا ہے کہ حکومت نے کئی شقیں تبدیل کر دیں مگر ان شقوں کو نہیں چھیڑا جو مستقبل میں ان کے اپنے وزراء کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔ اپوزیشن کا ردعمل کچھ غلط بھی معلوم نہیں ہوتا۔