Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yeh NRO Nahi To Kya Hai?

Yeh NRO Nahi To Kya Hai?

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے تجویز کیا گیا نیب ترمیمی بل این آر او کی درخواست نہیں تو اور کیا ہے؟ پورا بل نہ بھی پڑھیے آپ صرف چند نکات پڑھ کے دیکھ لیجئے، صاف نظر آئے گا کہ دونوں بڑی پارٹیز کی طرف سے یہ تجاویز چند شخصیات کو بچانے کی کوشش ہیں اور اگر حکومت یہ تجاویز مان لیتی ہے، بل پارلیمنٹ سے منظور ہو جاتا ہے تو نہ صرف شریف خاندان کے کیسز ختم کرنا نہایت آسان ہو جائے گا بلکہ آصف علی زرداری پر چلنے والے جعلی اکائونٹس ریفرنسزمیں سے جان بھی نکل جائے گی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے پیش کیے گئے مجوزہ بل کے چند نکات دیکھئے :

"انکوائری یا انویسٹی گیشن کے کسی بھی مرحلے میں، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے یا اپیل کے التواء کے دوران، پبلک آفس ہولڈر یا کوئی بھی دوسرا شخص اپنے (آمدن سے زائد) اثاثے یا (لوٹی ہوئی ) رقم نیب کو واپس کرنا چاہے تو چئیرمین نیب کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ تمام حقائق پر غور کرنے کے بعد یہ آفر قبول کر لے۔ اگر چئیرمین نیب راضی ہو جاتا ہے تو وہ کیس کی اپروول کے لیے معاملہ عدالت کے پاس بھیجے گا اور پبلک آفس ہولڈر یہاں تک کہ اس کے شریک ملزم کی رہائی کے لیے بھی عدالت سے سفارش کرے گا"

"اگر چیئرمین نیب ملزمان کی آفر قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے (یعنی چیئرمین نیب اپنا بندہ نہیں ہوتا) تو ملزم کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ یہی آفر لے کر براہ راست عدالت کے پاس چلا جائے"

اس مجوزہ ترمیمی آرڈیننس میں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ جج بھی اگر اپنا بندہ نہ ہوا تو پھر کیا کرنا ہے۔ البتہ ان تجاویز کو پڑھ کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترمیم پیش کرنے والوں کی خواہش ہے کہ ڈیل پلی بارگین سے مختلف ہو۔ پلی بارگین میں لوٹی ہوئی دولت ادا کرنے والے کو نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پیسے ادا کر کے بھی مجرم ٹھہرتا ہے اور سات سال کے لیے نا اہل ہو جاتا ہے۔ اس نئے ترمیم شدہ قانون میں بظاہر ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا بل پیش کرنے والوں کی خواہش ہے کہ کرپشن کرنے والے پبلک آفس ہولڈرز اور ان کے ساتھی لوٹی گئی رقم کسی بھی مرحلے پر چئیرمین نیب کے ساتھ ڈیل کر کے ادا کر دیں، انہیں مجرم اور نا اہل تصور نہ کیاجائے اور وہ بدستور سیاست اور اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں؟ یعنی پکڑے جائیں تو پچھلے پیسے واپس کر دیں نئی کرپشن کی راہ نکال لیں۔

مجوزہ بل کا ایک اور دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ "پانچ سال پہلے ہونے والی ٹرانزیکشز پر نیب کسی قسم کی انکوائری نہیں کر سکتا"۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کی اس تجویز کو مان لیا جاتا ہے تو ایک ہی جھٹکے میں ایون فیلڈ، العزیزہ اور پانچ سال پہلے کی منی لانڈرنگ کے کیسز پایۂ تکمیل کونہیں پہنچ جائیں گے؟ کیونکہ نیب پانچ سال پہلے کی کرپشن کا حساب نہیں مانگ سکے گا۔ اس شق کا ایک اور باریک پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک حکومت پانچ سال کے لیے قائم ہوتی ہے یعنی حکومت میں آتے ہی پہلے سال جو کرپشن کی جائے گی، حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد خود بخود اسے آئینی تحفظ حاصل ہو جائے گا یعنی حکومت میں رہ کر کرپشن کیجئے اورپانچ سال بعد اپوزیشن میں جا کر مزے کیجئے کیونکہ نیب تو پانچ سال پرانی ٹرانزیکشن پر انکوائری کر نہیں سکتا۔

اس مجوزہ ترمیمی بل کا ایک اورمزیدار نقطہ یہ ہے" نیب کرپشن کے ان کیسز پر انکوائری نہیں کر سکتا جس میں پبلک منی یا عوام کا پیسہ شامل نہ ہو"۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر انور مجید نے فیک اکائونٹس کھول کر کہیں سے بھی حاصل کی گئی رقم اس میں رکھی جسے آصف زرداری یا بلاول بھٹو نے اپنی سالگرہ کے کیک اور بکرے خریدنے کے لیے استعمال کر لیا تو نیب اس پر انکوائری نہیں کر سکے گاکیونکہ اس میں پبلک منی کو دخل نہیں ہے۔ یا پھر اگر ڈاکٹر عاصم نے آصف زرداری کے لیے کسی کاروباری گروپ سے بھاری رشوت لے کر پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن لگانے کی اجازت دے دی تو نیب اس پہ بھی انکوائری نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ سودا دو کاروباری شخصیات کے درمیان ہوا۔ عوام کے پیسے کا اس میں دخل نہیں۔

اس مجوزہ بل کی ایک اور مضحکہ خیز شق یہ ہے کہ "نیب ایک ارب روپے سے کم رقم کی کرپشن کی انکوائری نہیں کر سکے گا"۔ یعنی ننانوے ننانوے کروڑ تک کی کرپشن کو وہ دیگر ادارے ڈیل کریں گے جن کے ساتھ ڈیل کرنا آسان ہے۔ نیب کو اس "چھوٹی " سی رقم سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔

ابھی پورا ڈاکیومنٹ ہمارے سامنے نہیں آیا، ہم اپوزیشن کی جانب سے دی گئی تجاویز میں سے اتنا ہی جانتے ہیں جتناشبلی فراز نے اپنی ٹویٹ میں پوسٹ کیا۔ ان شقوں کا جائزہ لینے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن واقعی این آر او کی تلاش میں ہے کیونکہ اگر اپوزیشن کی یہ تجاویز مان لی جاتی ہیں تو شریف اور زرداری فیملی کی تمام مشکلات دور ہو جائیں گی اور انہیں کیسز میں ریلیف مل جائے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی شقیں کسی نہ کسی بڑی سیاسی شخصیت کے کیسز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے اور تقریبا سبھی کے لیے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کیا اس بات کا کوئی امکان موجود ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر وجود میں آنے والی حکومت اپوزیشن کو تجاویز کو مان کے نیب آرڈیننس میں ترمیم کر دے؟ اگر حکومت ایسا کرے گی تو یہ سیدھا سیدھا مک مکا ہو گا۔ دوسرا، یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ حکومت آنے والے دور میں اپنے وزراء کی کرپشن کو بھی بچانا چاہتی ہے۔ کوئی اور چاہے نہ چاہے کم ازکم عمران خان سے اس کی بالکل توقع نہیں۔