Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Wazir e Azam Imran Ke Liye Nobel Inam

Wazir e Azam Imran Ke Liye Nobel Inam

وزیر اعظم عمران خان نے ایک سال کے اندر دو مرتبہ امن عالم کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ افغان امن معاہدہ تو ان کی سہولت کاری کے بغیر ناممکن تھا۔ اس راہ میں کئی موڑ آئے مگر وزیر اعظم عمران خان نے حکمت اور تدبر سے کام لیا اور آخر ایک معجزہ رونما ہوا۔ یہ معجزہ تھا عمران خان کی اس سوچ کا نتیجہ کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، بات چیت سے مل بیٹھ کر معاملات طے کرو۔ افغانستان کی سرزمین کی قسمت میں شورش لکھ دی گئی تھی، چالیس برس سے ایک قوم نے بد امنی میں گزارے، قربانیاں دیں اور ستم سہے اورآفریں ہے۔ پاکستان کی کہ وہ ہر نازک گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اس نے ڈومور کے تقاضے سنے مگر ان سنے کر دیئے۔ پاکستان کسی طور اپنے افغان بھائیوں کے خون کے کھیل میں شریک نہیں ہو سکتا تھا اور جب جب پاکستان کو موقع ملا تو اس نے افغان مسئلے کے تمام فریقوں کو ایک میزپر بٹھانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچی۔ اس معاہدے کی توثیق اقوام متحدہ نے بھی کر دی ہے۔ اور اب پوری دنیا اخلاقی طور پر اس معاہدے کی تکمیل کروانے کی پابند ہے۔

افغان معاہدے نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا کہ ایک سپر پاور اوراس کے ساتھ نیٹوکے درجنوں ممالک کی فوجیں یوں آسانی سے امن معاہدے پر دستخط کر دیں گی مگر یہ ہو گیا اور دنیا نے اس کے لئے وزیر اعظم عمراان خان کو داد دی، اس کے اظہار کے لئے انٹرنیٹ پر ایک پٹیشن پیش کی گئی ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو نوبل امن انعام کے لئے نامزد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ پٹیشن جس کسی نے تحریر کی اس کا خیال تھا کہ اس پر پانچ لاکھ لوگ دستخط کر دیں گے مگر جب میں یہ سطور رقم کر رہاہوں تو پانچ لاکھ کی یہ حد عبور کی جا چکی ہے اور یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے کہ چند دنوں کے اندر کسی پٹیشن کی حمائت میں پانچ لاکھ لوگ آگے بڑھیں۔ ادھر گیلپ سروے بھی میدان میں اترا اور اس کے سوالوں کے جواب میں بھی لاکھوں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس مطالبے کی حمایت کی کہ وزیر اعظم عمران خان کو نوبل امن انعام کے لئے نامزد کیا جائے۔ گیلپ پاکستان کئی عشروں سے عوامی سروے کر رہا ہے اور اس کے نتائج کو کبھی کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔

پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور برٹش پارلیمنٹ کا تجربہ رکھتے ہیں، انہیں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان سے ملنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ وہ فلسطین اور کشمیر کاز کے لئے بڑے متحرک اور پر جوش نظر آئے، اس لئے جب ان کی طرف سے بھی عوام سے کہا گیا کہ وہ عمران خان کیلئے نوبل انعام کے مطالبے کی حمایت کریں تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ چودھری سرور پارٹی سربراہ کے حق میں لابی کر رہے ہیں بلکہ ہر کسی کو لگا کہ یہ تو میرے دل کی بھی آواز ہے۔ گورنر سرور کا مطالبہ قومی اور عالمی میڈیا کے ذریعے نوبل کمیٹی تک پہنچ چکا ہے اور کمیٹی بھی جانتی ہے کہ سرور صاحب کے مطالبے کے پیچھے ان کی عالمی امور پر گہری سوچ حاوی ہے۔ گورنر سرور کی اس تجویز کو گلف ٹو ڈے نے نمایاں طور پر شائع کیا اور قومی میڈیا نے بھی اس کی کوریج کی۔ امن عالم کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے اس کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو انہوں نے پلوامہ سانحے کے بعد ادا کیا۔ بلکہ ابھی انہوں نے اپنا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ ایک نشری پیغام میں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا کہ بھارت ایک قدم امن کی طرف بڑھائے گا تو پاکستان چار قدم آگے بڑھے گا۔ بد قسمتی سے بھارت نے ان کے واضح پیغام پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور ا س اثنا میں پلوامہ ہو گیا اور بھارت نے پاکستان کو دھمکانا شروع کر دیا۔ اس مرحلے پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کوپیشکش کی کہ وہ پلوامہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرے توو ہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں گے مگر بھارت مصر رہا کہ وہ سرجیکل سٹرائیک کرے گا جو اس نے کر دی۔

بھارتی فضائیہ پاکستان کے اندر گھسی، وزیر اعظم عمران خان نے پاک فضائیہ کو تحمل کی ہدائت کی مگر بھارت پر یہ واضح کرنے کے لئے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو اسکی کمزوری نہ سمجھ لیا جائے، اس لئے جوابی وار میں بھارت کے دو جنگی طیارے مار گرائے اور ایک ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنا لیا۔ اس مر حلے پر بھی بھارت نے مزید شرارت کے لئے اپنے براہموس میزائل پاکستان کے چھ نشانوں پر لگائے تو وزیراعظم عمران خان کے پاس کوئی ا ور چوائس نہیں تھی کہ وہ ایٹمی ڈیٹرنٹ کے اصول کی اہمیت ثابت کریں۔ اس کے لئے پاکستان نے بھارت کے ہر شہر کو نشانے پر رکھا اور چند میزائل بھارت کے دور پار کے ایک سر پرست اسرائیل کے لیے بھی تیار رکھے، بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور پاکستان نے ہمیشہ جو موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے میزائل اور ایٹم بم صرف امن کو یقینی بنانے کے لئے ہیں، امن کوغارت کرنے کے لئے نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس فروری کے آخری تین دنوں میں جس تدبر اور حکمت کا مظاہرہ کیا اس پر امریکہ کا ایک متعصب اخبار کرسچین سائنس مانیٹر بھی یہ مطالبہ کئے بغیر نہ رہ سکا کہ عمران خان نوبل امن انعام کے مستحق ہیں۔ پلوامہ کا واقعہ جنگی تاریخ میں اسی طرح یاد رکھا جائے گا جس طرح بے آف پگز کا واقعہ جنگوں کی تاریخ میں ایک یادگار حیثیت کا مالک ہے۔ اس وقت خروشیف اور کینیڈی کے تدبر کو امتحان درپیش تھا۔ عمران خان ہر لحاظ سے قیام امن کے امتحان میں سرخرو رہے ہیں۔ بر صغیر کے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان امن کاسوال ہو یا افغانستان میں عالمی امن کی راہ ہموار کرنے کا مرحلہ ہو۔ عمران خان نے ایک اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کیاا ور انسانیت کوا من کی نوید دی، انہیں نوبل انعام ملے گا تو یہ نوبل کمیٹی کے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔