ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کو سب جانتے ہیں، میاں عبد المجید کا بھی میں تعارف کراچکا ہوں کہ وہ نور بصیرت والے میاں عبد الرشید کے چھوٹے بھائی ہیں، انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اپنی چونسٹھ سالہ یادوں کی آڈیو ٹیپ مجھے بھجوائی ہے، میں اس کا متن یہاں درج کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر رفیق احمد سے میری پہلی ملاقات مانچسٹر برطانیہ میں انیس سو چھپن میں ہوئی تھی، وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کرنے کے بعد وہاں گئے تھے اور انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے درخواست دی تھی۔ جس پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے انہیں کہا کہ آپ مانچسٹر یونیورسٹی میں چلے جائیں وہاں ایم اے فائنل کا سال گزاریں اس کے بعد ہم آپ کو اپنے ہاں پی ایچ ڈی کی اجازت دیں گے۔ میں اس وقت مانچسٹر میں ٹیکسٹائل انجینئرنگ کا کورس کر رہا تھا۔ ہم ایک ہی جگہ پر ٹھہرے تھے۔ ہم جس گھر میں رہتے تھے اس کا مالک لائبریرین تھا اور اس کی بیوی کسی گرائمر سکول میں جغرافیہ کی ہیڈ ٹیچر تھی۔ ہم جب کسی گورے کو یہ بتاتے تھے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو وہ کہتے تھے انڈیا سے؟ یعنی وہ پاکستان کو بھارت کا حصہ یا صوبہ سمجھتے تھے۔ ہم انہیں بتاتے کہ یہ ایک نیا ملک ہے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
رفیق صاحب کو قائد اعظم سے ملنے کا اعزاز بھی حاصل تھا، ان کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی تھی اور وہ اسلامیہ کالج کی طلبا یونین میں بھی شریک رہے تھے، وہ علامہ اقبال کو مجدد سمجھتے تھے اور قائد اعظم کو بہت بڑا اسلامک لیڈر گردانتے تھے۔
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک سال ہم اکٹھے رہے۔ پھر انہوں نے آکسفورڈ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا شروع کر دی۔ جب ہم واپس آئے تو رفیق احمد صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں ملازمت شروع کر دی اور میں نے کراچی آ کر اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ جب کبھی میں لاہور جاتا تو ان سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہتی۔ ان ملاقاتوں میں وہ پاکستان کی معیشت، فلاح، نظریہ پاکستان، پاکستان کی موجودہ حالت اور مستقبل کی بات کرتے۔ ان کا یہ عشق تھا کہ وہ نئی نسل کو نظریہ پاکستان کے ساتھ منسلک رکھیں، ان کا اصل میدان اکنامکس تھا اور بہت سی کمیٹیوں کا بھی وہ حصہ تھے۔ اکنامکس میں وہ جس چیز پر وہ زور دیتے تھے کہ اس ملک کو ایگریکلچر اکنامکس کے حساب سے چلائیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارے پاس اتنے منرل وسائل موجود ہیں تو اس کا فائدہ اٹھائیں۔ جب فائونڈیشن بنا اور مجید نظامی صاحب اس کے چیئرمین بنے اور ڈاکٹر رفیق احمد صاحب اعزازی سیکرٹری بنے۔ انہوں نے جس طرح اس کو آرگنائز کیا وہ سامنے ہے۔ انہوں نے سکولوں میں نوجوان نسل کو منتخب کیا تاکہ انہیں نظریہ پاکستان بارے آگاہ کریں۔ ننا نوے میں کراچی کی حالت بہت خراب تھی۔۔ ہم سب کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں کراچی کو علیحدہ نہ کر دیا جائے کہ اس سے پہلے مشرقی پاکستان میں ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا تھا۔ تو رفیق احمد صاحب نے مجھے اور نصرت مرزا صاحب کو کہا کہ آپ وہاں اپنا ایک چیپٹر بنائیں۔ تو ہم نے کراچی میں کام کرنا شروع کر دیا، سکولوں اور دیگر جگہوں پر۔ پھر وہاں جو بچوں کے تقریری مقابلے ہوتے تھے تو انہوں نے کہا کہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے مقرر بچوں کو لاہور بھیجا جائے تو ہم بچوں کو لاہور بھیج دیتے۔ کاروان یکجہتی اور خیرسگالی کے نام سے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ بچوں کو لاہور کی تاریخی جگہیں بھی دکھائی جاتیں اور پروگرام کرائے جاتے۔ انہوں نے انتہائی محنت کے ساتھ نظریہ پاکستان کو نئی نسل میں متعارف کرانے کی کوشش کی۔ وہ ایک تحقیقی یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے جس میں بہت بڑی لائبریری ہو قائد اعظم اور پاکستان سے متعلق۔ اسلامی نظریے سے متعلق اور پرانے اسلاف کی ان موضوعات پر کتابیں جمع ہونی چاہئیں۔ وہ بلڈنگ نہر کنارے بن چکی ہے۔ اس میں کام بھی شروع ہو چکا ہے۔
میرا ان سے دوسرا تعلق یہ تھا کہ میرا گائوں گوجرانوالہ سے بارہ میل دور ہے۔ اس کا نام کلاسکے ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں وہاں یہ کام کر رہا ہوں اس سلسلے میں آپ میری مدد کریں۔ وہ بائیس برس میرے ساتھ وہاں جاتے رہے۔ ہم ہر سال جا کر وہاں پوزیشن لینے والے بچوں کو انعامات دیتے۔ وہاں دو سکول ہیں۔ ایک بچوں اور دوسرا بچیوں کے لئے۔ جہاں انہیں وظائف دیتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیق وہاں بچوں کے ساتھ گھل مل جاتے۔ ان کے ساتھ قائد اعظم، دو قومی نظریہ، منرل ویلتھ کا ذکر کرتے اور پوچھتے بچو تم کیا بنو گے۔ وہ بچوں کی کیریئر کونسلنگ کرتے۔
ڈاکٹر رفیق احمد کوپاکستان کے ساتھ اتنا عشق تھا۔ وہ سکولوں میں نظریہ پاکستان کی ترویج کرتے۔ علامہ اقبال کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتے۔
پچیس مارچ کو وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں نے تیئیس مارچ کو ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوا۔ پچیس کوان کے موبائل سے کال آئی تو میں پہلے یہی سمجھا ان کی جوابی کال آ رہی ہے لیکن معلوم ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے۔ یہ چھوٹی سی کہانی میرے ایسے دوست کی ہے جو نظریہ پاکستان سے دل و جان سے محبت کرتا تھا۔ اللہ اس عظیم انسان کی مغفرت کرے۔ آمین۔