Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Haye Maar Gayi Mehangai

Haye Maar Gayi Mehangai

میں نے صبح سے ٹی وی آن کرر کھا ہے۔ ایک ہی خبر دہرائی جا رہی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب اور گورنر پنجاب کی ون ٹو ون ملاقات ہو رہی ہے۔ وہ چودھریوں کو منانے کی ترکیب سوچ رہے ہیں پھر خبر آئی ہے کہ دونوں صاحبان چودھریوں کے گھر جا رہے ہیں۔ یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ چودھریوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ا سوقت کم از کم پنجاب میں ایک ہی سنگین مسئلہ ہے وہ یہ کہ چودھریوں کو کیسے خوش کیا جائے۔ اس کے لئے چودھریوں کو مزید وزراتیں دی جائیں۔ ان کے حامی ارکان اسمبلی کو کروڑوں کے فنڈز دیئے جائیں گے۔

آپ نے دیکھ لیا کہ جب صوبے کے عوام مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑ رہے ہیں تو صوبے کے چند بڑوں کو ذاتی مفادات عزیز ہیں، ان میں سے کسی کو صوبے کے کروڑوں عوام کی معاشی مشکلات اور روٹی پانی کی کوئی تشویش لاحق نہیں۔ تو پھر یہ ٹی وی چینلز پر مہنگائی مہنگائی کا جو شور مچا ہے۔ مجھے تو یہ سب فراڈ لگتا ہے۔ میرے ساتھ ایک کامرس رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ اکبری منڈی کے اشارے پر وہ اچانک کسی چیز کی نایابی اور مہنگائی کی خبریں فائل کرنا شروع کر دیتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ یہ چیزیں تو دکانوں پر موجود ہیں اور سستی بھی ہیں مگر ایک دو ہفتے کی کمپین کے بعد واقعی یہ اشیا غائب ہو جاتی تھیں اور لوگ انہیں مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ میڈیا اور اکبری منڈی کا یہ گٹھ جوڑ آج ختم ہو گیا ہے۔ مجھے نیب کی طرح کسی کو چور چور کہنے کا شوق نہیں مگر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ چور اور کتی آپس میں ملے ہوئے ہیں اور مہنگائی کا شاخسانہ ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔

ان دنوں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں سبزیوں کے نرخوں کی دہائی دی جا رہی ہے، دلی کی ایک عورت چیخ کر کیمرے کے سامنے کہتی ہے کہ پہلے پیازچھیلنے سے آنسو بہتے تھے اب اس کی قیمت سن کرآنسو ٹپ ٹپ بہنے لگتے ہیں۔ یہ ایک اچھا ڈائیلاگ ہے جسے صرف رٹا لگوا کر بلوایا گیا ہے۔ اگر کیمرہ مین یا پروڈیوسر کو علم ہو کہ بر صغیر میں یہ موسم پیا زیا آلو یا دیگر سبزیوں کی کاشت کا وقت ہے، برداشت کا نہیں۔ اب کچھ دنوں میں نئی فصل مارکیٹ میں آ جائے گی تو کسانوں کی پیدا وار منڈیوں میں گل سڑ جائے گی۔ ان کو کوئی خریدنے والا نہ ہو گا یا پھر سستے داموں فروخت ہوں گی۔ دراصل ہمارا شہری معاشرہ کسانوں کابری طرح استحصال کرنے کا عادی ہو چکا ہے کہ کسان کو اچھے دام کبھی نہ مل سکیں۔ اور وہ بھوکے کا بھوکا رہے اور شہری طبقے کے لئے دن رات مزدومزدوری کرتا رہے۔ راتوں کو جاگ کر فصل کو سیراب کرے، مہنگی کھادیں اور جراثیم کش ادویات ڈالے،۔ بجلی کے بھاری بھر کم بل ادا کرے مگر اس کی جیب خالی کی خالی رہے۔ پچھلے سال میرے گائوں کے ایک کسان نے روتے ہوئے بتایا کہ اسے اپنی سبزی کے کھیت پر ہل چلانا پڑا ہے کیونکہ ان کو اکھاڑنے کے اخراجات کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ مارکیٹ سے جو قیمت ملتی تھی اس سے وہ مزدوری بھی ادا نہیں کر سکتا تھا۔

میں 80ء کے عشرے میں برطانیہ جانے لگا۔ پہلے ایک دو سال میں اس قابل تھا کہ دو تین قمیضیں اور ٹائیاں اور جرابیں خریدلاتا تھا مگر پچانوے اور اس کے بعد جانا ہوا تو میں صرف ان چیزوں کو دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ میرا بجٹ ان کی خرید کامتحمل نہیں ہو سکتا تھا، دنیا میں مہنگائی ہو اور ہمارے ہاں نہ ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

جن لوگوں نے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا ہے اور صاف پانی کے منصوبے سے لندن کے بنک بیلنس بنائے ہیں، ان کے لئے کہیں مہنگائی نہیں۔ جو لوگ لاہور کے ارد گرد کئی ایکڑوں کے فارم ہائوس بنائیں اور اڑھائی کروڑ کی گاڑیوں میں پھریں۔ دو دو جیٹ جہازوں کے مالک ہوں۔ ان کو مہنگائی کیوں تنگ کرے گی۔ مہنگائی صرف سفید پوش اور تنخواہ دار طبقے کو پریشان کرتی ہے۔ اور تنخواہ دار طبقے میں سے صرف انہی کو جو رشوت نہیں لیتے ورنہ رشوت خور تو ڈھیروں کے حساب سے سامان خریدا کرتے تھے اور اب بھی خریدتے ہیں۔ کبھی کسی شاپنگ سنٹر میں جا کر دیکھیں کس طرح ٹرالیوں کی ٹرالیاں بھر کر گاڑیوں میں ڈالی جاتی ہیں۔ یہ جو پچا س ہزار سے ا وپر کی فروخت کا حساب دینے سے تاجر انکاری ہیں تو ا سکے پیچھے بھی کوئی حکمت تو ہے اور یہ ہے ذاتی مفاد، مگرقومی اور ملکی مفا د کسی کوعزیز نہیں۔

مہنگائی روکنا حکومت کی ذمے داری تو ہے مگر حکومت کو لایعنی مسائل کے گرداب میں پھنسایا جاتا ہے۔ کبھی مولا نا کا دھرنا۔ کبھی ایم کیو ایم کا روٹھنا اور کبھی چودھریوں کے واویلے۔ کیا یہ لوگ عوام کے مفاد کو نہیں سمجھتے۔ کیا یہ عوا م کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں نہیں پہنچتے۔ اگر ان لوگوں کو ذرا بھر بھی ووٹروں کی رائے کااحساس ہوتا تو آئے روز بچوں کی طرح روٹھنا اور حکومت سے ساس اور بہو جیسے جھگڑے کرنا ان کی عادت نہ ہوتی۔ یہ بندے کے پتر بن کر دکھاتے۔ ذاتی مراعات وزارتوں اور کروڑوں کے فنڈز کے جھگڑے نہ کھڑے کرتے۔

جتنے اجلاس ایک دوسرے کو منانے کے لئے منعقد کئے گئے ہیں ان سے ا ٓدھے اجلاس مہنگائی پر قابو پانے کی تدابیر پر سوچ بچار کے لئے منعقد کر لیتے تو بہتوں کا بھلا ہوتا مگر ان لوگوں کو بہتوں کا بھلا عزیز نہیں۔ انہیں ذاتی جیبیں بھرنے اور وزارتوں کا لالچ ہے۔ کسی دین، کسی اخلاقیات سے انہیں قطعی سرو کار نہیں۔ ان کا دھرم اقتداراور اقتدار ہے۔ پیسہ پیسہ پیسہ ان کی زبان کی گردان ہے، عوام کی کون سنتا ہے۔ اور لوگ روتے ہیں مار گئی مہنگائی۔ مارا تو ان لوگوں کی ہوس اقتدار نے ہے یا ان کی یہ سازش کہ ملک کو سیاسی انتشار کا شکاررکھنا ہے۔ ایٹمی ملک پاکستان میں استحکام ا ٓ گیا تو یہ ان کے آقائوں کوقبول نہیں۔

ملزمان سابق ریکارڈ یافتہ ہیں۔