Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Fifth Generation War Aur Asim Bajwa Ki Maharat

Fifth Generation War Aur Asim Bajwa Ki Maharat

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ انہیں حکومت اس حال میں ملی کہ اس کی معیشت آئی سی یو میں تھی۔ اور عاصم باجوہ، وزارت اطلاعات کا اس وقت حصہ بنے ہیں جب ملکی صحافت نزع کے عالم میں ہے اور اس کے اکھڑے سانسوں کی بحالی کے لئے وینٹی لیٹر بھی دستیاب نہیں۔

میں عاصم باجوہ کے ایک دوست کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ یہ شخص مسیحا نفس ہے۔ اس نے افواج پاکستان اور وطن عزیز کے دفاع کی جنگ، جسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے، اس کامیابی سے لڑی کہ ایک دنیا ان کی صلاحیتوں کا لوہا ماننے پر مجبور ہو گئی۔

پینسٹھ کی جنگ کے پہلے ہی روز بھارت نے دعوی کیا کہ اس کی افواج قصور شہر پر قابض ہیں۔ لاہور کی انار کلی میں مٹر گشت کرر ہی ہیں اور اس کے بکتر بند ڈویژن نے لاہور اور گجرات کے درمیان جی ٹی روڈ کو کاٹ دیا ہے۔ بھارتی اخبارات کے یہ تراشے میرے گھر کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ بھارت کے یہ سفید جھوٹ پاکستانیوں کا حوصلہ توڑنے کے لئے تھے۔ اکہتر میں اسی بھارتی میڈیا نے پاک فوج کی بنگالیوں پر مظالم کی داستانیں گھڑیں۔ اس زمانے میں جھوٹ پر مبنی پرو پیگنڈے کو نفسیاتی جنگ کا حربہ کہا جاتا تھا۔ پھر سرد جنگ اور ففتھ جنریشن وار کا دور آیا مگر ملک کو آج ففتھ جنریشن سے آگے کی جنگ کا سامنا ہے، میں اسے ٹوینٹی ٹوینٹی جنریشن وار کا نام دیتا ہوں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے دفاعی مورچے خالی ہیں۔ ملک کے ہزراوں صحافی جو اس جنگ میں ذہن سازی کر سکتے تھے، بے روز گاری کا شکار ہیں اور بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کا دم بھی اکھڑ رہا ہے، ان کی سرکولیشن سکڑ چکی ہے۔ اس عالم میں ملکی میڈیا اپنا کردار کیسے ادا کرے گا۔

عاصم باجوہ اچھی طرح اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ ایٹمی اسلحے کے ہوتے ہوئے پاکستان پر کسی کو جارحیت کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ اب صرف اعصابی، نفسیاتی اور ذہنوں کو تسخیر کرنے کی کشمکش جاری رہ سکتی ہے۔ اور اس کشمکش کے پہلے مرحلے میں اندرا گاندھی نے 1971ء میں کہا کہ بنگلہ دیش بنا کردو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیاہے۔

مگر یہ جو کرونا نے قیامت نازل کی ہے، اسے کیا نام دیا جائے۔ عالمی میڈیا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ جراثیمی جنگ ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں یہ چائنہ وائرس ہے اور وہ چین سے تاوان طلب کریں گے جبکہ چین کا الزام ہے کہ ووہان میں امریکہ چین مشترکہ جنگی مشقوں میں امریکی فوجیوں نے کرونا وائرس کا بم داغا تھا۔ عاصم باجوہ کا پس منظر فوج کا ہے، انہیں سب سے پہلے تو اپنے تجربے سے پاکستانی قوم پر واضح کرناہو گا کہ کرونا کیا بلا ہے اور اس کروناکی آڑ میں کونسا مافیا اپنالچ تل رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ایک ایک حکم کی اطاعت کیوں کی جا رہی ہے۔ سرحدیں بے معنی کیوں ہو گئیں، اور پوری دنیا نے اپنی معیشت کا گلا خود کیوں گھونٹا۔ امریکہ جیسے ملک لرز ہ بر اندام ہیں۔ اس عالم میں مشیر اطلاعات کا اولیں ٹاسک یہ ہو گا کہ وہ پاکستانی قوم کو خوف اورسراسیمگی کی کیفیت سے نجات دلائیں اور کوئی حوصلہ دیں۔ کرونا کاڈر اس قدر ہے کہ باپ اپنے بیٹے سے ہاتھ ملانے سے ڈرتا ہے۔ ماں اپنے نو زائیدہ بچے کو چومنے کو ترستی ہے۔ مزدور دیہاڑی کے لئے تڑپتا ہے۔ دکان دار اپنے بند شٹر کو دیکھ کرکڑھتاہے۔ آٹے، چینی پکوڑوں، سبزیوں کے نرخ آسمان سے باتیں کرر ہے ہیں۔

خدشہ یہ ہے کہ آج تو یہ منہ مانگی قیمت پر دستیاب ہیں مگر چند ماہ بعد اشیائے ضرورت عنقا ہو جائیں گی اور اس ملک کی اشرافیہ بھی جس نے بقول وزیر اعظم لاک ڈائون کروایا ہے، اپنی رولز رائس کو چکن رول کی جگہ نہیں کھا سکے گی۔

کرونا مافیا کا دوسرا نشانہ مذہب اسلام بنا ہے، حرمین شریفین بند، عمرہ اور طواف بند، روضہ پر سلام بند، مسجد اقصی بند، زیارتیں بند رمضان کے روزوں کی برکات ندارد۔ عیدین کی خوشیاں غارت اور حج پر بڑا سوال اور پاکستان کے سوا سارے عالم اسلام کی مساجد پر تالے۔ میرے ملک کے مولوی ضد نہ کرتے، ڈبلیو ایچ او یا اپنے اپنے علاقے کے ایس ایچ او کے سامنے پہلے دن ہی سرینڈر کر دیتے، ڈبلیو ایچ او والے تالے لگاتے یا نہ لگاتے ہماری بلا سے۔

یہ ہے کرونا کی ففتھ جنریشن وار کا وہ کاری وار جس نے ہمارے ایمان کی چولیں تک ہلا ڈالی ہیں۔ دشمن کے خلاف یہی ایک ایمان کی قوت ہی تو مسلمان کی اصل قوت ہے۔ عاصم باجوہ صاحب اس قوت کی بحالی کے چیلنج سے کیسے نبٹیں گے۔ بے شک وہ ذہین ہیں، فطین ہیں، منطق اور دلیل سے بات کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں۔ ان کی زبان میں تاثیر ہے، وہ ففتھ جنریشن وار جیتنے کی مہارت سے مالا مال ہیں۔

مگربظاہر ایک ہاری ہوئی جنگ کا پانسہ کیسے پلٹیں گے۔ میں تو ان کی کامیابی کی دعا ہی کر سکتا ہوں۔ ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ مگر قوم کی ڈھارس بندھانے کے لئے انہیں کوئی نیا گویڑ لڑانا ہو گا جب اسد عمر یہ کہہ رہے ہوں کہ دو کروڑ کے لگ بھگ لوگ نوکریوں سے محروم ہو سکتے ہیں تواس طرح کی خبروں سے لوگ مزید سراسیمگی، ڈیپریشن اور شیزو فرینیا میں مبتلاہو جائیں گے۔ اور کرونا یا بھوک سے نہیں، محض موت کے خوف سے مر جائیں گے۔ جناب عاصم باجوہ! آپ دو ماہ پہلے آجاتے۔ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔