معزز قارئین! کل (6 رجب 1441ھ ) 2 مارچ 2020ء سے پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان، بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر شریف ؔ میں آسودۂ خاک خواجہ غریب نواز، نائب رسول ؐ فی الہند حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے یومِ وِصال کی تقریب جاری ہیں۔ یہ تقریبات کئی دِن جاری رہیں گی۔ حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتیؒ 587ھ (1191ء )میں لاہور تشریف لائے۔ آپؒ نے کچھ عرصہ مزار داتا صاحبؒ پر چلّہ کشی کی اور یہ شعر لکھا / کہا
گنج بخشؒ، فیض عالم، مظہر نُور خُدا!
ناقصاں دا پِیر کامِل، کاملاں را، راہنما!
یعنی " (حضرت داتا صاحبؒ) خزانے بخشنے والے، تمام مخلوقات و موجودات کو بہت زیادہ فائدہ پہنچانے والے، خُدا کا نُور ظاہر کرنے والے، نامکمل لوگوں کے لئے کامل پِیر اور کامل (پیروں کے لئے) راہنما (راستہ دِکھانے والے) ہیں"۔
معزز قارئین! میرے آبائو اجداد صدیوں سے اجمیر میں آباد تھے، جنہوں نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ تحریک پاکستان کے دَوران دو سِکھ ریاستوں (نابھہ، پٹیالہ) اور ضلع امرتسر میں میرے خاندان کے 26 افراد دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب " تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن" رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہوگیا تھا۔ میرے والد صاحب 1955ء میں مجھے پہلی بار اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور دربار داتا صاحبؒ بھی۔ مَیں نے اُن کی راہنمائی میں احاطۂ دربار داتا صاحبؒ میں خواجہ غریب نوازؒ کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ داتا صاحبؒ ہیں۔ پھر میرا یہ معمول بن گیا کہ " پہلے اپنے پیر مُرشد کی چلّہ گاہ پر اور پھر بارگاہِ داتا گنج بخشؒ میں۔
میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو لائل پور (فیصل آباد) کے ڈیلی "بزنس رپورٹ" میں شائع ہُوئی۔ مَیں 1960ء میں اردو اور پنجابی کا باقاعدہ شاعر ہوگیا۔ 1960ء میں جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی اے فائنل کا طالبعلم تھا تو مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کیا۔ فروری 1964ء میں جناب مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں " نوائے وقت" کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں جب قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ مشترکہ اپوزیشن کی امیدوار بنیں تو جنابِ مجید نظامی نے اُنہیں "مادرِ ملتؒ " کا خطاب دِیا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملی ترانے لکھے۔ ایک ترانہ "محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان " کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میں شائع ہُوا اور دوسرا ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا۔ جنوری 1999ء میں میرے دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات، سیّد انور محمود "Pakistan Broadcasting Corporation" کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اُنہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو نئے سرے سے ریکارڈ کروایا۔ میرا ترانہ پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا۔
مَیں نے 11 جولائی 1973ء کو اپنا روزنامہ "سیاست" لاہور جاری کِیا۔ پھر مجھے اسلام آباد میں پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی "Press Briefings" میں جنابِ مجید نظامی سے بار بار ملنے کا اتفاق ہُوااور "A.P.N.S" کی "Meetings" میں بھی۔ روزنامہ " نوائے وقت" میں میری کالم نویسی کا دوسرا دَور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک اور تیسرا دَور اگست 2012ء سے شروع ہو کر جناب مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی 2017ء تک جاری رہا۔
اگست 2012ء سے چیئرمین " نظریۂ پاکستان ٹرسٹ" جنابِ مجید نظامی کے وِصال (26 جولائی 2014ء تک) "ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان" کی تقریبات کے اختتام کے بعد جنابِ مجید نظامی اپنے کمرے کے بجائے سیکرٹری "نظریۂ پاکستان ٹرسٹ" سیّد شاہد رشید کے کمرے میں رونق افروز ہوتے تھے تو مجھے اُن سے کئی بار طویل ملاقاتوں کا شرف حاصل ہُوا اور "نظریۂ پاکستان ٹرسٹ" اور " کارکنانِ تحریک ِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ" کے دوسرے اکابرین سے بھی۔ پھر مجھے بار بار علاّمہ اقبالؒ کے روحانی مُرشد مولانا رومؒ کا یہ شعر ضرور یاد آتا، جنہوں نے فرمایا تھا کہ
"یک زمانے صُحبتے با اولیاء
خوشتر از صد سالہ طاعت بے ریا"
یعنی۔" مُرشد کامل کی صحبت میں ایک گھڑی گزارنا سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بڑھ کرہے "۔
معزز قارئین!"تحریک ِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ )کارکن " گوجرانوالہ کے چودھری ظفر اللہ خان نے مجھے بہت متاثر کِیا جنہیں اردو، پنجابی اور فارسی کے ہزاروں شعر یاد ہیں۔ مَیں نے جب بھی اُن سے کسی ایک شعر کا دوسرا مصرعہ پوچھا تووہ مجھے پوری غزل سُنا دیتے۔ چودھری ظفر اللہ خان سے میری ملاقاتیں اُس وقت دو آتشہ ہو جاتی تھیں جب ستمبر 1981ء سے ( سکاٹ لینڈ) گلاسگوکے "بابائے امن" ملک غلام ربانی بھی اُن میں شریک ہونے لگے۔
معزز قارئین! اِس سے قبل 1980ء کے اوائل میں میرے خواب میں خواجہ غریب نوازؒ میرے گھر رونق افروز ہُوئے۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ "ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ "۔ پھر
خواجہ غریب نوازؒ کی برکتوں سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے۔
لیکن میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ "مجھے " نوائے وقت" کے کالم نویس کی حیثیت سے ستمبر 1991ء میں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے ساتھ سعودی عرب اور خانۂ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ مَیں تو اِسے بھی خواجہ غریب نوازؒ کی برکات میں سے ایک برکت سمجھتا ہُوں۔ میرے لئے یہ بھی خواجہ غریب نواز ؒ کی برکات میں سے ایک برکت ہے کہ " مَیں نے برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر 20 فروری 2014ء کو منعقد ہونے والی چھٹی سہ روزہ " نظریۂ پاکستان کانفرنس" کے لئے ملّی ترانہ لکھا جسے نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے کمپوز کِیا اور جب "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا تو۔ Wyne Hall تالیوں سے گونج اُٹھا اِس پر مجھے جنابِ مجید نظامی نے " شاعرِ نظریۂ پاکستان" کا خطاب دِیا۔
جولائی 2001ء میں جب صدر جنرل پرویز مشرف "آگرہ سربراہی کانفرنس " میں بھارت گئے تو مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم میں شامل تھا۔ پروگرام میں اجمیر شریف کا دورہ بھی شامل تھا لیکن ملتوی ہوگیا۔ تو مجھے بہت دُکھ ہُوا لیکن جون 2004ء میں مجھے اپنے جدّی پشتی پیر مُرشد خواجہ غریب نوازؒ کے آستانے پر حاضری کا موقع ملا۔ واپسی پر مَیں نے پنجابی اور ہندی میں خواجہ غریب نوازؒ کی دو منقبتیں لکھیں۔ جو مَیں آئندہ اپنے کسی کالم میں شامل کروں گا۔ معزز قارئین!۔ مَیں تو اِسے بھی خواجہ غریب نوازؒ کی برکات میں سے ایک برکت سمجھتا ہُوں کہ "مفسرِ نظریۂ پاکستان" جناب مجید نظامیؒ کے خطاب یافتہ "شاعرِ نظریۂ پاکستان" کو ایک بار پھر اُن کی یادگار " نوائے وقت " میں کالم نویسی کا موقع مل رہا ہے۔