معزز قارئین! کل 13 رجب اُلمرجب (9 مارچ 2020ءکو) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے باب اُلعلم حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا جشن مولُود انتہائی عقیدت و احترام سے منایا۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل قائداعظم محمد علی جناح سے ایک صحافی نے پوچھا کہ "آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ " تو اُنہوں نے جواب دیا کہ "نہ شیعہ اور نہ سُنی، مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں البتہ ہم سب مسلمان باب اُلعلم حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں "۔
2 فروری 1969ءکو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند ِ اوّل عطا کِیا تو مَیں نے اپنے والد صاحب "تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن" رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اُس کا نام ذوالفقار علی رکھا۔ ذوالفِقار کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ"وہ دو دھاری تلوار جو پیغمبرِ اِنقلابﷺ کو غزوہ بَدر میں مالِ غنیمت میں ملی تھی"۔ ذوالفِقار پر دندانے اور کُھدی ہُوئی لکیریں تھیں"۔ آنحضرت نے ذُوالفِقار حضرت علیؓ کو عطاءکردی تو اُس کا نام " ذوالفِقارِ علی" پڑ گیا۔
معزز قارئین! سرورِ کائناتﷺ اور خُلفائے راشدینؓ کے تبرّکات (جن میں "ذوالفقارِ علیؓ "بھی شامل ہے) جمہوریہ تُرکیہ کے شہر استنبول کے "Topkapi Museum" میں سجائے گئے ہیں۔"ذوالفقارِ علیؓ " سمیت مجھے 2 بار اُن تمام تبرّکات کی زیارت کی سعادت حاصل ہُوئی ہے، پہلی بار ستمبر 1973ءمیں سرکاری دورے پر اپنے 2 مرحوم ادیب اور صحافی دوستوں انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ اور دوسری بار ستمبر 1991ءمیں مرحوم صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ۔
ذوالفقار علی چوہان کے بعد میرے دوسرے 4 بیٹوں کے نام بھی حضرت علی ؓکے نام پر رکھے گئے اور پانچوں پوتوں کے بھی۔ میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ معظم ریاض چودھری کے بیٹے کا نام بھی علی امام ہے۔
مَیں نے راجپوتوں کی تاریخ پڑھنے کے شوق میں 1980ءسے ہندی زبان سیکھنا شروع کی تھی (اب بھی سیکھ رہا ہُوں)۔ بھارت کے صوبہ ہریانہ کے قدیم شہر "کورو کشیتر" میں ہزاروں سال پہلے ایک ہی دادا کی اولاد کوروؤں اور پانڈوؤںمیں جنگِ عظیم"مہا بھارت" ہُوئی۔ مہابھارت میں "وِشنو دیوتا" کے اوتار شری کرشن جی نے پانڈو ہیرو ارجن کو جو اُپدیش (خُطبہ) دِیا، وہ مُقدّس کتاب "گیتا" کہلاتی ہے۔ ارجن شری کرشن جی کا پھوپھی زاد، اُن کی بہن سُبھادرا کا خاوند اور شاگرد تھا۔ شری کرشن جی نے اپنے اُپدیش میں ارجن کیلئے "ستِھتّ پرتگیہ" کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ سنسکرت زبان میں بہت ہی زیادہ عالم و فاضل اور جنگجو شخص کو "ستِھتّ پرتگیہ" کہا جاتا ہے۔
سرکارِ دو عالمﷺ کے چچا زاد، داماد اور شاگرد "باب اُلعلم" اور "اسد اللہ" (اللہ تعالیٰ کے شیر) کہلانے والے حضرت علی مرتضیٰ ؓ جیسا "ستِھتّ پرتگیہ" تاریخِ اسلام میں اور کون ہے؟ ۔ حضرت علی ؓتمام غزوات میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے۔ آپؓ کے خُطبات کا انتخاب "نہج اُلبلاغہ" کا ترجمہ دُنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ "آپ ؓبے خطر جنگ میں کود پڑتے ہیں۔ کیا آپ ؓ کو ڈر نہیں لگتا؟ تو آپؓ نے کہا کہ "موت علی ؓ پر گِر پڑے یا علیؓ موت پر، ایک ہی بات ہے لیکن فرزند ابو طالبؓ موت سے ہر گز بھاگنے والا نہیں"۔
معزز قارئین! مَیں نے ستمبر 1983ءمیں خواب میں دیکھا کہ "مَیں خشک دریا میں چلنے لگا تو پتہ چلا کہ وہ تو دلدل ہے"۔ مَیں گھبرا گیا، میرا جسم دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ اچانک میرے مُنہ سے "یاعلیؓ!" کا نعرہ بلند ہُوا۔ مجھے یوں محسوس ہُوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے بتایا کہ " تُم پر مولا علیؓ کا سایہ شفقت ہے!"۔ آگرہ سربراہی کانفرنس جولائی 2011ءکے موقع پر مَیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔ سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر (P.I.O) چودھری اشفاق احمد گوندل کی طرف سے پاکستانی میڈیا ٹیم کے ارکان کو گروپس کی شکل میں آگرہ کاتاج محل دِکھایا گیا۔
میرے گروپ میں جناب اے بی ایس جعفری، مِیر جمیل اُلرحمن (اُن کی بیگم یاقوت مِیر) جناب غلام اکبر، سیّد ضمیر نفیس اور اُن دِنوں اسلام آباد پریس کلب کے صدر جناب محمد افضل بٹ تھے۔ ہمارے گائیڈ رام پرکاش نے (شاید) ہمیں خوش کرنے کے لئے گنبد میں زور سے پکارا " اللہ"۔ پھر ہم سب کو "اللہ" کی صدائے باز گشت سُنائی دی پھر اُس نے ہم سب سے کہا کہ "آپ بھی کوئی نعرہ لگائیں" تو مَیں نے بڑی قوت سے نعرہ لگایا "یاعلیؓ!"۔ گُنبد سے بھی "یاعلیؓ " کی صدائے باز گشت گونج اُٹھی۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا "اثر چوہان صاحب! کیا آپ شیعہ ہیں؟"۔ مَیں نے کہا کہ "مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن دشمن ملک کی سرزمین پر یا علیؓ سے بڑا اور کونسا ایمان افروز نعرہ لگایا جاسکتا ہے؟ ۔ پاکستان کی مسلح افواج کا سب سے بڑا اعزاز بھی تو حضرت علیؓ کے صفاتی نام "حیدر" پر "نشانِ حیدر" ہے "۔ اِس پر جعفری صاحب اور دوسرے دوست بہت خوش ہُوئے۔
معزز قارئین! 18 ذوالحجہ 10 ہجری کو "غدیر خُم" کے مقام پر سرورِ کائنات نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ"جِس کا مَیں مولا ہُوں، اُس کا علیؓ بھی مولا ہے"۔ پھر فرمایا! " اے اللہ! تُو اُس شخص کو دوست رکھ جو علیؓ کو دوست رکھے اور جو علیؓ سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔!"۔ عربی زبان میں مولا کے معنی ہیں "آقا، سردار اور رفیق" اور مولا علیؓ کے پیرو کار کو "مولائی" کہا جاتا ہے۔"عاشقِ رسول، مصورِ پاکستان" علاّمہ محمد اقبالؒ نے اپنے بارے میں بتایا تھا کہ ....
بُغضِ اصحابِ ثلاثہ سے نہیں اقبالؒ کو!
دِق مگر، اِک خارجی سے آکے مولائی ہوا!
....O....
مصورِ پاکستان کی تقلید میں مَیں نے بھی کئی نعت ہائے رسول مقبول میں مولاعلیؓ کا تذکرہ کیا ہے۔ اردو اور پنجابی میں دو منقبتیں بھی لکھیں۔ آج پنجابی کی منقبت پیش قارئین ہے۔ عنوان ہے"جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!"۔ مکمل منقبت یوں ہے ....
نبی آکھیا سی، وَلیاں دا، وَلی ؓمولا!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!"
....O....
جدوں چاہوندا، اللہ نال، گلّ کردا!
سارے جگّ دِیاں، مُشکلاں حلّ کردا!
شہر شہر مولاؑ، گلی گلی، مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....
لوکھی آکھدے نیں، شیر تَینوں، یزداں دا!
سارے نعریاں توں وڈّا، نعرہ تیرے ناں دا!
تیرے جیہا نئیں کوئی، مہابلی مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....
واہ! نہج اُلبلاغہ دِیاں لوآں!
سارے باغاں وِچّ اوس دِیاں خوشبواں!
پُھلّ پُھلّ مولاؓ، کلی کلی مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....
سارے وَلیِاں دے بُلھاں اُتّے سَجدی اے!
مَن موہ لَیندی جدوں وَجّدی اے!
تیری حِکمتاں دی وَنجھلی مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....
پاؤ اپنے اثر وَلّ وِی پھیری!
دِن رات تڑفدی اے رُوح میری!
راہ تکدی کدوں دی کھلّی مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
....O....