ہمارے ہاں سیاستدانوں نے ملکی سالمیت کے متعلق غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کر کے حساسیت پیدا کر دی ہے۔ کشمیر پربجا طور پر سیاسی قیادت کی کارکردگی فوجی آمروں سے بہتر رہی لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ عوام نے ان سانپوں کو بار بار دودھ پلایا جو جمہوریت کو ڈس لیتے ہیں، ایسے خاندان نظام کو مسحکم نہیں ہونے دیتے یوں آپ چاہیں تو اس عدم استحکام کو تنازع کشمیر کے حل میں تاخیر سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔۔ خاص طور پر انیس سو نوے کے عشرے میں مسلم لیگ ن کے پروپیگنڈہ سیل نے بے نظیر بھٹو کو جس طرح سکیورٹی رسک قرار دیا وہ آج بھی یاد ہے، ن لیگ کے میڈیا سیل نے عمران خان کے خلاف سیتا وائٹ سکینڈل اٹھانے کے لئے ایک اخبار سے پیکیج ڈیل کی۔ پھر آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا نام دیا۔ بہرحال یہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے ہتھکنڈے تھے۔ اسامہ بن لادن سے رقم لینے، آئی جے آئی کی تشکیل اور سرکاری خزانے سے سیاستدانوں کی خریداری کے معاملات پر جب بھی بات ہوئی ایک درجہ پر آ کر رک گئی۔ آئی جے آئی کیس پر عدالت نے سماعتیں کیں مگر نتیجہ؟
یہ سب یاد دلانے کی نوبت یوں آئی کہ یوم استحصال کشمیر سے قبل فوج نے ایک ترانہ جاری کیا۔ اس پر کیا کیا لطیفے نہ بنے۔ بلکہ پھکڑ پن کہیں۔ یوں معلوم ہوا بہت سے بھانڈ طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ریاست کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا۔ اس پر بھی انتہائی عامیانہ پن سے بات کی گئی۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل کسی معقول فرد کی نگرانی میں کام نہیں کر رہے بلکہ کم علم، سیاسی اختلاف رائے کو عقیدہ سمجھنے اور موضوع کے پس منظر سے ناواقف افراد جماعتوں کے ترجمان اور سوشل میڈیا کارکن بن چکے ہیں۔ یہ تقسیم شدہ رائے اور عدم برداشت پر مبنی اختلاف جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک طرح سے ملک کمزور بنایا جا رہا ہے۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ بھارت سلامتی کونسل میں استصواب رائے کے وعدے سے فرار اختیار کر رہا ہے۔ بھٹو سے پہلے پاکستان کی خارجہ پالیسی قومی مفاد کے عنصر سے خالی تھی۔ 1974ء میں لاہور شہر او آئی سی کا میزبان ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے تنازعے کے متعلق تمام سربراہان کو بریف کیا۔ تمام اسلامی سربراہوں نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔ یہ وہی دور ہے جب پاکستان نے تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا معاملہ اٹھایا۔ دنیا کو معلوم ہوا کہ بھارت ایک قابض ریاست ہے۔ اقوام متحدہ میں بھٹو نے کشمیر پر بہترین تقریر کی۔
جنرل ضیاء الحق کا دور کشمیر پر پاکستان کی جارحانہ پیشقدمی کو پسپائی میں بدل گیا۔ پاکستان کو افغان جہاد میں الجھا کر تنازع کشمیر فراموش کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو 1988ء میں برسر اقتدار آئیں لیکن انہیں خارجہ امور اور کشمیر کی وزارتوں سے دستبرداری پر مجبوور کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں کشمیر کی تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ مراکو میں او آئی سی کا اجلاس تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خان نے شرکت کی۔ دونوں نے مسلم ممالک کے سربراہوں کے سامنے کشمیریوں کی حالت زار بیان کی۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دور ہی تھا جب پاک بھارت مذاکرات میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کو تنازع کشمیر کے تیسرے فریق کے طور پر نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ حریت کانفرنس مذاکرات میں شریک ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے مئی 2004ء میں بین الاقوامی کشمیر الائنس سے خطاب کیا۔ اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھیں لیکن دنیا ان کو ایک سیاسی دانشور تسلیم کر کے ان کے خیالات سے متاثر ہوتی تھی۔ یہ بے نظیر بھٹو کا دور اقتدار ہی تھا جب طے پایا کہ 5فروری یوم کشمیر کے طور پر منایا جائے گا۔ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر کشمیری تارکین وطن نے سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد شروع کیا۔
دو سال ہوئے تحریک انصاف پہلی بار اقتدار میں آئی۔ عمران خان وزیر اعظم بنے اور بھارت کے ساتھ تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کی۔ بھارت نے شر انگیزی جاری رکھی اور امن کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری سمجھا تو پاکستانی فضائیہ نے دشمن کے دو جہاز مار گرائے۔ عمران خان نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں خود کو کشمیریوں کا سفیر قرار دیا، ستمبر 2019ء کو دورہ امریکہ کے موقع پر صدر ٹرمپ سے کشمیر پر بات کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ان کا یادگار خطاب قابل ستائش قرار پایا۔ سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر ان دو برسوں کے دوران 3بار کشمیر کا معاملہ آ چکا ہے۔ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بزرگ حامی سید علی گیلانی کی جدوجہد کے اعتراف میں انہیں نشان پاکستان دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں جونا گڑہ، لداخ، جموں، سرکریک وغیرہ پاکستان کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ سفارتی معاملات کا تجزیہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے عشروں بعد کشمیر کے معاملے کو جارحانہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔
ایسے نقشے کوئی قانونی حیثیت بلا شبہ نہیں رکھتے لیکن ان سے آپ کی ایک نئی قانونی اور اصولی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔ حیران ہوں گے کہ بے نظیر کے بعد نواز شریف اور پھر پرویز مشرف کا ذکر کیوں نہ کیا، عرض ہے کہ ہم نے ان ادوار میں وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوست ممالک کو جس طرح کشمیر پر حمایت کا کہا ہے کیا کسی نے کبھی سوچا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن ایک اچھی پیشرفت کو ٹھٹہ اڑا کر بھارت کو خوش کیوں کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون اور سفارتی معاملات کی سوجھ بوجھ سے محروم کچھ سیاستدان اور ان کے ترجمان اس مشق کو غیر ضروری اور بیکار قرار دے کرپاکستان کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں، جمہوریت مضبوط کرنے کے لیئے ذمہ دار کردار ادا کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ ملک سے بہترین انتقام بن جایا کرتی ہے۔