Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hum Mazhabi Hain Ya Dikhai Dete Hain?

Hum Mazhabi Hain Ya Dikhai Dete Hain?

ہم سب ایک دوسرے سے بڑھ کر مذہبی دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمل کی بات نہیں، دکھاوے، نمائش اور ریا کاری نے مذہبی ایلیٹ کے بارے میں ہماری سوچ تبدیل کر دی ہے۔ اب اس کا ردعمل آئے تو ہم جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ یہ لبرل، سیکولر اور دین بیزار قوتوں کی سازش ہے۔ ہمیں انصاف پر مبنی بات کہنے کے لئے پہلے بتانا پڑتا ہے کہ ہم سچے پکے مسلمان ہیں، ایسا نہ کہیں تو کوئی بھی آپ کے عقیدے اور تصورات پر فتویٰ لگا کر آپ کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

موضوع کئی پرتوں میں بکھرا ہوا ہے۔ آغاز حالیہ دنوں کے کچھ مناظر سے کر لیں۔ ملتان میں ایک نوجوان بچی کو حور بنا کر جلوس نکالا گیا۔ بچی کا والد ساتھ بیٹھا ہوا نظر آیا لوگ اس حور کے گرد بھیڑ کی صورت جمع تھے، کچھ عقیدت سے اسے نقد رقم پیش کر رہے تھے۔ لاہور میں میلاد کے جلوس کے دوران ایک عجیب تماشا کیا گیا۔ ایک لڑکے نے شیطان کا بہروپ بھرا، اسے رسیوں سے جکڑا گیا۔ شیطان کو مجبور کیا گیا کہ وہ جشن میلاد النبی پر خوشی کا اظہار کرے۔ شیطان نے رقص کر کے جلوس کے شرکاء کا دل لبھایا۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک گلی سے گزرا جہاں پہاڑی بنائی گئی تھی۔ ایک لڑکا سانتا کلاز بنا بیٹھا تھا۔ بچوں کو اپنے تھیلے سے گولیاں ٹافیاں گفٹ کر رہا تھا۔

یاد دلاتا چلوں کہ اس کالم کا مخاطب عام لوگ ہیں۔ خود کو مذہبی رہنما اور عالم کہلانے والوں سا علم ہمارے پاس ہے نہ اتنی عقل۔ ہم تو اپنے جیسے لوگوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ وطن عزیز میں جب کبھی عوام کے حقوق سلب کئے گئے اور ان کی زندگی مشکل بنائی گئی تب تب یہ درس دیا گیا کہ ہمیں گھاس کھا کر گزارا کرنا ہے۔

لاہور چار دن سے اذیت کا شکار ہے۔ ملتان روڈ بند ہے۔ ریاست نے نقص امن کے اندیشے سے کالعدم تنظیم کے رہنما کو نظر بند کر رکھا ہے۔ عدالتیں کسی بحران میں کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتیں اس وجہ سے حکومت جب اقدام کرتی ہے تو اس کا قانونی جواز نہیں ہوتا، حکومت بدنام ہوتی رہتی ہے، کئی بار ایسا ہوا۔ یہ سوال اہم رہا ہے کہ یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ ریاست کی بنائی تنظیمیں اور جماعتیں بعد میں ریاست کو چیلنج کر دیتی ہیں۔ پھر یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں قوم پرستی اور پنجاب میں مذہب کو بطور کارڈ کیوں بروئے کار لایا جاتا ہے، تحریک نظام مصطفی ہو، بے نظیر بھٹو کے خلاف قاضی صاحب کی سربراہی میں دھرنا ہو یا ان دنوں سرگرم کالعدم تنظیم کی کارروائیاں۔ سب نے انتشار کے سوا سماج کو کیا دیا؟

میں نے بعض ایسے لوگوں سے بات کی ہے جو سماج میں مذہب کے کردار پر غور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کو آزادی دلانے، مساوات اور باہمی احترام کے ساتھ نسل انسانی کوہزاروں خدائوں سے نجات دلا کر وحدہُ لاشریک کی عبادت کا کہتا ہے۔ مذہب حدود اللہ کا نام ہے۔ جب کوئی امر حدود اللہ سے تجاوز کر جائے تو وہ مذہب سے خارج ہو جاتا ہے۔ ہم مسلمانوں کوخبردار تو اس پیرائے میں بھی کر دیا گیا کہ تمہاری عبادتیں تمہارے منہ پر پھینک دی جائیں گی۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک گروہ اٹھتا ہے۔ مذہب کی اپنی تاویل کرتا ہے اور اس تاویل کو مسترد کرنے والوں کے خلاف جارحانہ سلوک شروع کر دیا جاتا ہے۔ باقی لوگ اس صورت حال کی مذمت کے لئے یکسو اور متفق ہونے کی بجائے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح مثبت سوچ والے طبقات مسلسل تقسیم ہوتے ہوتے غیر معمولی حد تک کم ہو چکے ہیں۔

باقی مذاہب کی چھوڑیں ہم اسلام کے پیروکار ہیں۔ اس کی بات کریں گے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے یتیم کا مال کھانے والے کے متعلق اللہ رب العزت کا کیا حکم ہے؟ جس نے چیزوں میں ملاوٹ کی یا کم تولا اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کا حکم کیا ہے، ذخیرہ اندوز اور امانت میں خیانت کرنے والوں کے متعلق کیا کہا گیا۔ یہ بھی یاد کر لیجیے کہ اللہ نے ایک مسلمان کا مال، جان اور عزت دوسرے پر حرام فرما رکھی ہے۔ کسی کا دل چیر کر آپ دیکھ نہیں سکتے، اپنا حال تو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، ٹٹولیئے اپنے اندر کو کہ آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کن چیزوں کو دین کا حصہ بنا رہے اور رب اور اس کے رسولؐ کی حدود سے کہاں کہاں تجاوز کر رہے ہیں۔

جس طرح رنج خدا کی مرضی کے سامنے مزاحمت سے جنم لیتا ہے، اسی طرح مسلمان رب کا نظام قبول نہ کریں اور اسلام کی تعلیمات کے مقابل حکمران اشرافیہ کی پیروی شروع کر دیں تو فساد فی الارض جنم لیتا ہے۔ اشرافیہ نے کہیں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی آنچ تیز کی جائے۔ آسان طریقہ تھا۔ پہلے لوگوں کے مشترکہ پرامن ثقافتی ورثے کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا، ثقافت کو مذہب کی جنگ کرائی گئی، وہ کتاب تو یاد ہو گی جو جماعت اسلامی نے شاید ثقافت کی تلاش کے نام سے اسی مقصد کے لئے شائع کی تھی۔ پھر حکمرانوں نے مذہب کو ریاکاری اور عوام کے حقوق غصب کرنے کے لئے استعمال کیا۔ انسان فطری طور پر کسی نہ کسی جدل میں رہتا ہے۔

یہ جدل و مسابقت مثبت ہو تو ریاست چاہے چھوٹی ہو قوم ترقی کر جاتی ہے، جدل منفی ہو جائے تو بائیس کروڑ افراد ایک دوسرے کی جیب اور سر کاٹنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے سماج میں اسے قیادت کے لائق نہیں سمجھا جاتا جو سب سے زیادہ متقی اور دانشمند ہو بلکہ جو بدزبانی میں ید طولیٰ رکھے، سڑکیں بند کرنے کی طاقت رکھتا ہو، جس کی احمقانہ باتوں کے دفاع کے لئے لاکھوں لوگ کھڑے ہوں۔ وہ اجلے اور باوضو منظر ہم نے گنوا دیے جب میلاد کے جلوس درود سلام کی صدائوں سے آراستہ، مسلکی ہم آہنگی کا نمونہ ہوا کرتے۔ ہم نے گالیاں دینے والوں کو اہمیت دی اور اب ہم سب ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں۔