بہت سال ہوئے، ہم دو دوست ایک ایسے دیہاتی بوڑھے سے بات کر رہے تھے جس کا گائوں پھیلتے لاہور شہرکا حصہ بن چکا تھا۔ اس خاندان کے نوجوان اکثر جرائم پیشہ تھے۔ کچھ نے زمین کے بدلے ملنے والے معاوضے سے شہر سے ہٹ کر زرعی اراضی خریدی۔ باباجی خود اپنے دور میں ڈیرہ داری کرتے تھے۔ میرا دوست برگرنوجوان، پوراشہری، گائوں کی کبھی شکل نہ دیکھی۔ وہ زمیندار بننا چاہتا تھا۔ فیروز پور روڈ پر چالیس ایکڑ اراضی خریدنے کے بعد ایک ضعیف سن پجارو میں اڑا پھرتا۔ باباجی سے پوچھا زمین کا اچھا استعمال کیسے کروں۔ ان کا جواب حیرت انگیز تھا:ڈڈو فارم بنا(مینڈک پروری کرو) میرا دوست اسے مذاق سمجھا مگر میرے لئے یہ سوچنے کا نیا زاویہ تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کے بعض بڑے ہوٹلوں میں چینی باشندوں کی پسندیدہ ڈشز بنائی جاتی ہیں۔ یہ مذاق نہیں، پوری سنجیدگی سے دیا گیا مشورہ تھا جسے میرے دوست نے اہمیت نہ دی۔
میں نے ایک بار مستنصر حسین تارڑ صاحب سے پوچھا کہ لکھنے والے کو اپنے اردگرد کے بارے میں کتنا علم ہو تو وہ لکھنے کے قابل کہلا سکتا ہے۔ تارڑ صاحب کا جواب:لکھنے سے پہلے اپنے ماحول سے اتنی آگاہی ضروری ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ ہمارے گھر کے پاس جو جوہڑ ہے اس میں کتنے قسم کے مینڈک پائے جاتے ہیں۔ یقین جانیے مجھے لگا کہ ہم جن لوگوں کو روزانہ پڑھنے پر مجبور ہیں انہیں لکھنا ہی نہیں چاہیے۔ اپنے ماحول سے کٹی ہوئی لفظیات اور بیرونی اثرات والی تحریریں ہماری تو نہ ہوئیں۔ ہمارا لکھنے والا ادیب ہو یا کالم نگار وہ پاکستان کی مٹی پر کھڑا ہو کر مغربی لفظ اور سوچ لکھ رہا ہے۔
خیر تارڑ صاحب کا مشورہ صرف مینڈکوں سے واقفیت تک محدود نہیں، دیگر جانور، حشرات، پیڑ پودے اور موسم بھی اس مشورے میں شامل ہیں۔ حالیہ دنوں ایک چینی دوست سے ملاقات ہوئی اور میں نے حلال گوشت کی بابت چینی مارکیٹ کا ذکر کیا تو اس نے بیف کے ساتھ مینڈک فارمنگ کا مشورہ دیا۔
مینڈک جل تھلیا ہے۔ یہ خشکی اور تری دونوں جگہ رہ سکتے ہیں۔ مینڈک جوہڑوں، ندی نالوں، دریائوں کے اردگرد اگی گھاس، زمین میں پڑی دراڑوں میں رہتے ہیں۔ جان کا خطرہ محسوس کریں تو بے دھڑک پانی میں کود کر اس جگہ جا چھپتے ہیں جہاں گہرا کیچڑ ہوتا ہے۔ مینڈک رات کے وقت اپنے ٹھکانوں سے نکلتے ہیں، خشکی پر اردگرد گھوم پھر کر کیڑے مکوڑوں سے پیٹ بھرتے ہیں۔ پاکستان کی آب و ہوا شدید ہونے کے باعث مینڈک سردی برداشت نہیں کر سکتے اس لئے نومبر سے فروری تک سرمائی نیند کے لئے کسی محفوظ جگہ پر مٹی وغیرہ میں گھس کر بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔ اس ہائبرنیشن کے دوران جسم کی چربی گھل کر توانائی پہنچاتی ہے۔ موسم گرما کی آمد پر خفتہ توانائی لوٹ آتی ہے۔ مینڈک بیدار ہو جاتے ہیں اور جل تھل کے علاقوں میں پھر سے رونق لگ جاتی ہے۔
پاکستان میں مینڈکوں کے دو خاندان ہیں۔ عام مینڈک جن کو انگریزی میں فروگ کہتے ہیں۔ یہ پانی سے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ ان کی جلد ملائم، نمدار، لیس دار مادے سے لتھڑی ہوئی ہوتی ہے، یہ خشکی پر بہت کم عرصہ گزارتے ہیں۔ دوسرا خاندان ٹوڈز کا ہے۔ یہ خشکی پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ان کی جلد خشک، کھردری اور گول ابھار دار ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں 16مختلف انواع کے مینڈک اور ٹوڈز پائے جاتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ کہ پاکستانی ماہرین اور ادیب تو اپنے مینڈکوں کے متعلق معلومات جمع نہ کر سکے غیر ملکیوں نے پوری تحقیق کر لی۔ 1864ء میں گھنتر نے ہمالیائی ٹوڈ دریافت کیا۔ مرٹنز نے 1949ء میں آزاد کشمیر کے مغربی علاقے سے یہی قسم پکڑی۔ 1799ء میں شنائیڈر نے موجودہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور وزیرستان کی پہاڑیوں سے کالے داغوں والا توڈ پکڑا، 1891 میں مغربی بلوچستان کے علاقے سے ٹوڈ بلنجر پایا گیا، لارنٹ نے1768ء میں بلوچستان سے سبز داغوں والا ٹوڈ ڈھونڈا۔ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ پایا جانے والا عام ٹوڈ "بوفوسٹوماٹی کس" 1863ء میں ڈاکٹر لٹکن نے دریافت کیا۔
مینڈک فارمنگ کے لئے جو مقامی قسم استعمال ہو سکتی ہے اسے راناٹیگرانا" بسنتی مینڈک" کہتے ہیں۔ یہ قسم معروف محقق ڈاڈن نے 1802ء میں بنگال سے دریافت کی۔ پاکستان کے میدانی علاقوں میں پایا جانے والا یہ سب سے بڑا مینڈک ہے۔ موسم برسات میں اس کا رنگ کھلتا ہوا پیلا ہونے کی نسبت سے اسے عرف عام میں بسنتی مینڈک کہا جاتا ہے۔ کیڑے مکوڑوں کے علاوہ اس کی خوراک میں گھاس، دوسرے مینڈک، پرندے وغیرہ شامل ہیں۔ حیرت کی بات کہ یہ مینڈک انسانی بال کھاتا ہے اور ہضم بھی کر لیتا ہے۔ اس کی ٹانگیں چین، کوریا، تھائی لینڈ وغیرہ میں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہیں۔
تزک بابری میں شہنشاہ بابر نے ہندوستان کے ایک عجیب مینڈک کا ذکر کیا ہے جو پانی کی سطح پر دوڑ سکتا ہے۔ اس مینڈک کو سائنو فلیکٹس کہتے ہیں۔ دادی اماں ایک کہانی سنایا کرتی تھیں۔ مینڈک کہتا ہے، ویاہ جانا، ویاہ جانا، چھوٹی مینڈکی کہتی: کنے کنے کنے کنے۔ بزرگ مینڈک کہتا: میں تو۔ میں تو۔ اس کہانی کی مدد سے مجھے مختلف مینڈکوں کی آوازیں شناخت کرنے میں مدد ملی۔ سنا ہے مینڈکی کو زکام ہو جائے تو ساری دنیا سے نخرے اٹھواتی ہے، بچوں کی کہانیوں میں مینڈک کاذکر بہت زیادہ ہے۔
چین، امریکہ، فلپائن، نائجیریا اور ایشیائی ممالک میں کروڑوں ڈالر کا یہ کاروبار ہو رہا ہے۔ سبز مینڈک، لیپرڈ مینڈک، اور بل فراگ کا گوشت اور ٹانگیں لگژری آئٹم سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بُل فراگ لانا، پرورش کرنا اور فروخت کرنا یقینا ایک مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن بے آباد زمینوں پر ایسے فارم بنانے اور چین کیساتھ اسکی تجارت کی سہولت پیدا کرنے کے لئے حکومت مراعات دے تو کچھ بیروزگاروں کو معقول روزگار میسر آ سکتا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے ہماری فوڈ مارکیٹ تبدیل ہو رہی ہے، ہم جن جانوروں کو بیکار سمجھتے رہے ہیں ان سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔