ایک جعلی اکائونٹ قاتلوں نے بنایا۔ ناظم جوکھیو کے نام سے بنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر بتایا گیا ہے کہ "جام صاحب کی پوری برادری، ملیر کی دیگر برادریاں اور عام و خاص اچھی طرح واقف ہیں کہ جام صاحب کس کردار کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، باشعور، انسانیت کے جذبہ سے سرشار، عاجز، منکسر، صوم صلوٰۃ کے پابند، تلاوت کرنے والے، خوف خدا رکھے والے، حقوق العباد کا خیال رکھنے والے اور سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے والے ہیں۔ ان کی کردار کشی کی ساری حدیں پار کر لی گئی ہیں " اس طویل تحریر کے آخر پر لکھا ہے "تم جیتو یا ہارو سنو، ہمیں تم سے پیار ہے"۔
ایک دوسرا منظر بھی پیش ہے۔ ناظم جوکھیو کی جواں سال بیوہ اور چار چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں۔ ارد گرد گاوں کی عورتیں بیٹھی ہیں۔ اس کی بیوہ شیریں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ وہ بتا رہی ہے کہ ایم پی اے جام اویس شرابی اور عیاش ہے۔ وہ اپنے عرب مہمانوں کے ساتھ سردیوں میں سندھ دھرتی کی طرف ہجرت کرنے والے تلور کے شکار میں مصروف تھا کہ پرندوں، ماحولیات اور دھرتی سے پیار کرنے والے ناظم جوکھیو نے اس کی ویڈیو بنا لی۔
ایم پی اے کے لوگ رات کو ناظم جوکھیو کو لے گئے، ناظم کو بھائی کے سامنے گاڑی میں بٹھایا اور تھپڑ مارے۔ رات کے کسی پہر ناظم کو قتل کر کے لاش مقامی تھانے بھیج دی۔ ناظم کے خاندان اور گائوں کے لوگوں نے جب جمع ہو کر لاش حوالے کرنے کا کہا تو انہیں لاش دی گئی۔" شیریں کہہ رہی تھی کہ جام خاندان طاقتور ہے۔ یہ غریب لوگوں پنچائتی فیصلوں میں جرمانے کر کے دولت مند بنے۔ عشروں سے کسی کی بکریاں، کسی سے نقدی اور کسی کی جائیداد فیصلوں کے بدلے ہتھیا رہے ہیں۔ شیریں کا کہنا ہے کہ میڈیا مدد نہ کرتا تو پولیس جام کو گرفتار نہ کرتی۔ میڈیا نہیں سوشل میڈیا نے یہ مدد کی، میڈیا تو وڈیرے لیڈروں کا آلہ کار ہے۔
ناظم جوکھیو سوشل میڈیا استعمال کرنا جانتا تھا۔ اس نے غیر قانونی شکار کی اطلاع سوشل میڈیا پر دی۔ ایک غیر قانونی عمل کی نشاندہی کی، کیا سندھ حکومت بتائے گی کہ غیر قانونی شکار والے مہمان اصل میں کس بڑے لیڈر کے مہمان تھے؟ ناظم جوکھیو کو جب جام اویس کے لوگ لینے آئے تو اس نے ویڈیو پیغام اپ لوڈ کیا کہ "جام کے لوگ اسے فیصلے کے لئے لینے آئے ہیں، وہ جا رہا ہے اور کسی سے ڈرتا نہیں "ناظم کے قتل کے بعد کیا ہوا یہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج کی کہانی ہے۔
ناظم کی برادری اور گائوں والے احتجاج کے لئے باہر نکل آئے۔ قومی شاہراہ پر دھرنا دیدیا۔ دولت مند افراد اور حکومتی شخصیات کا راستہ بند ہوا تو سندھ حکومت کو ہوش آیا کہ وہ تو غریب دوست حکومت ہے، پولیس کو خیال آیا کہ اسے مجرم کو پکڑنا تھا۔ نہایت ادب کے ساتھ ایم پی اے کو تھانے لایا گیا۔ ایک ڈی ایس پی نے ایم پی اے ہتھکڑی لگانے کی بجائے اس کا ہاتھ پکڑ کر عدالت میں پیش کیا، معلوم نہیں جام اویس نے کیا کہانی گھڑی ہو گی تاہم اسی روز کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کو تین روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا۔ ناظم کی تشدد زدہ لاش بدھ کے روز میمن گوٹھ سے ملی۔
ناظم جوکھیو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں "پورے بدن پر بدترین تشدد کے نشانات" پائے گئے۔ یہ رپورٹ جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے لکھی۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر محمد اریب کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے دوران ناظم جوکھیو کے بدن پر بے شمار زخم اور نیل موجود تھے حتیٰ کہ ناظم جوکھیو کے نازک اعضا کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
ایم پی اے جام اویس کا خاندان اس قتل پر احتجاج کو سیاسی مخالفین کی کارستانی قرار دے رہا ہے۔ کسی ہنستے بستے خاندان کو قبر میں اتار کر کتنا آسان ہے ایسا کہنا۔ مقامی رکن قومی اسمبلی جام اویس کا بڑا بھائی ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے انصاف کے ریاستی نظام پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کو قانون کے حوالے کر دیا ہے۔ پولیس نے اس طاقتور خاندان کے بھروسے کو قائم رکھا اور تھانے میں ملزم کو پورا احترام دیا گیا۔ آئو بھگت اور خدمت کی گئی۔ دوسری طرف ناظم جوکھیو کے خاندان کو خاموش کرانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ دبائو اور روپیہ دونوں استعمال ہو رہا ہے۔
جن دنوں مولانا بھاشانی نوجوان تھے۔ بنگال کے زمینداروں کے پاس غنڈے اور بدمعاش ہوا کرتے۔ زمیندار غریب دیہاتیوں پر رعب جماتے، ان کے گھروں میں چوریاں اور ڈاکے ڈلواتے۔ بہو بیٹیوں کو اغوا کر لیا جاتا۔ زمینداروں کی حویلیوں میں رقص کی محفلیں ہوتیں۔ ایک نوجوان ایسی ہی محفل کا مزہ کرکرا کرنے پہنچ گیا اور زمیندار سے غریب مزارعوں سے چھینی چاول کی بوریاں واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ اگلے روز راجا کے غنڈوں نے اس پر حملہ کیا۔
مولانا بھاشانی نے مظلوم کے زخموں پر خود مرہم لگایا اور کہا بھائیو مت پریشان ہوں، یہ لوگ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رکھ سکیں گے۔ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، ہمیں ان کے خلاف لڑنا ہے اور جدوجہد کرنی ہے"۔ ناظم جوکھیو کی بیوہ کہہ رہی تھی:میں اپنا گھر بار بیچ دوں گی لیکن جام کو سزا دلاوں گی، اللہ میرے ساتھ ہے، جام کے پاس دولت ہے، ہم غریبوں کے پاس زبان ہے جو اس کے خلاف بولے گی۔ ایک لحظے کو لگا جو کام سندھ کے حکمرانوں کو کرنا تھا وہ مولانا بھاشانی کی فکر انجام دے رہی ہے۔
سندھ کے راجہ وڈیرے ہیں۔ ان کی بہت سی شکلیں، عہدے اور نام ہیں۔ شاہ رخ جتوئی ہو یا جام اویس، ساری شکلیں ایک سی ہیں۔ سب ظلم کرنے کے عادی اور احتجاج کرنیوالوں کو دشمنوں کا آلہ کار قرار دیتے ہیں۔ ناظم جوکھیو کی سوشل میڈیا گواہی قاتل کی بھلے نشاندہی کر رہی ہے، اس کی بیوہ واقعات کی کڑیاں ملا کر اپنی دنیا لٹ جانے کا حال سنا رہی ہے۔ درد دل رکھنے والے لوگ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ موت کی وجہ تشدد بتا رہی ہے لیکن اس سے کیا ہو گا، یہ سب اس وقت فائدہ مند ہوتا اگر کوئی غریب کسی طاقتور کو قتل کر دیتا، وڈیروں اور سرداروں پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ قانون سے ماورا ہیں۔