چھ روز ہوئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میچ تھا۔ جب ڈی کوک نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ آئی سی سی اور تمام کرکٹ ٹیموں نے طے کیا ہے کہ وہ میچ سے قبل زمین پر گھٹنے ٹیک کر نسل پرستی کی مذمت کریں گی۔ گھٹنا ٹیکنے کی علامتی سرگرمی امریکی سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی گردن پر سفید فام پولیس اہلکاروں کا گھٹنا رکھ کر اسے قتل کرنے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ برس رونما ہوا اور امریکہ میں اس کی مذمت کرنے والے گروپوں نے اسے ایک تحریک کی شکل دی۔ حالیہ ورلڈ کپ میں امریکی تنظیموں کی درخواست پر گھٹنے ٹیکے جا رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی ایک قیامت بن کر سماج کو برباد کرتی رہی ہے۔
ہماری دوست اور امریکہ کی ممتاز صحافی ڈونا برسنز نے اس موضوع کو اپنی کتاب، بلیک اینڈ وائٹ، میں کچھ منفرد پہلو سے رقم کیا ہے۔ گورے سیاسی اور مالی طور پر طاقتور تھے۔ سیاہ فاموں سے نفرت اس قدر کہ گاڑی کے ٹائر کو آگ لگا کر کسی بے گناہ سیاہ فام کی گردن میں ڈال دیا جاتا۔ سیاہ فام کو کسی طرح مارنا، مجروع کرنا اور اس کی توہین کرنا عام تھا۔ جنوبی افریقہ میں اگرچہ نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھیوں کی تحریک سے پہلے ہی یہ طرز فکر تبدیل ہونے لگا تھا لیکن نیلسن منڈیلا نے ایک بڑے مفاہمتی کمشن کے ذریعے سب طبقات کو اپنی غلطیاں آن ریکارڈ تسلیم کرنے، سچ بولنے اور آئندہ کے لئے قومی کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔
کرکٹ جنوبی افریقہ میں گورے لے کر آئے۔ گوروں کی جنوبی افریقہ میں دلچسپی یہاں ہیرے کی کانیں معدنیات اور جنگلات کے خزانے تھے۔ گورے اپنے ساتھ جدید ہتھیار لے کر آئے جو لاٹھی اور تیر بدست افریقیوں کو غلام بنانے کے لئے استعمال ہوئے۔
جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کی تشکیل پر مقامی گروپ اعتراض کرتے رہے ہیں۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاہ فام اکثریت میں ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی اکثریت بھی سیاہ فام ہے لیکن جنوبی افریقہ کی ٹیم میں سیاہ فاموں کی نمائندگی ایک یا دو کھلاڑیوں تک محدود ہوتی ہے۔ باقی سارے گورے شامل کر لئے جاتے ہیں۔ ڈی کوک جنوبی افریقہ کے اچھے بیٹرہیں۔ انہوں نے نسل پرستی کے خلاف گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کے نتیجے میں وہ واپس بھیج دیے گئے۔ نسل پرستی جنوبی افریقہ میں ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کی ٹیم نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا تاہم اس گریز کی ایک وجہ گورے کھلاڑیوں کی روائتی سوچ ہے۔
انسانی نسل کی بہبود کے لئے ایک فرد کیا کر سکتا ہے اس کی ایک مثال مارسیلس کلے ہے۔ کلے امریکی ریاست کینٹکی کا رہنے والا تھا۔ اس نے غلامی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کے باپ کی طرف سے دولت اور غلام اسے ترکے میں ملے۔ کلے نے سیاہ فام غلاموں کو آزاد کر دیا اور ان سے لئے گئے کام کا معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے کھلے عام غلامی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کی سرگرمیوں پر جلد ہی ڈیمو کریٹک پارٹی کے حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا جانے لگا۔ جو لوگ غلامی کے حق میں تھے انہوں نے کرائے کے ایک قاتل سام برائون کو ذمہ داری سونپی کہ کلے کو قتل کر دے۔ 1843ء میں ایک تقریب کے دوران سام برائون نے کلے پر گولی چلا دی۔ گولی سینے میں لگی۔ کلے نے اس حالت میں بھی لڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنا حفاظتی چاقو نکال لیا۔ سام برائون نے یہ دیکھ کر دوبارہ گولی چلائی۔ خوش قسمتی سے گولی اس کے چاقو سے ٹکرا کر راستہ بدل گئی۔
کلے نے ہمت دکھائی اور حملہ آور کو زمین پر گرا دیا۔ اس واقعے کے چھ سال کے بعد اس پر غلامی کے حامی چھ بھائیوں نے اس وقت حملہ کر دیا جب وہ نسل پرستی اور غلامی کے خلاف تقریر کر رہا تھا، ان لوگوں نے کلے کو پیٹنے کی بجائے اس کو چاقو سے گھائل کرنا اور گولی سے مارنے کی کوشش کی۔ اس کشمکش میں دو حملہ آور مارے گئے۔ کلے کو بہت سے زخم لگے لیکن وہ جانبر ہوا اور 92برس کی طویل عمر پائی۔ مسلسل حملوں نے اسے ذہنی مریض بنا دیا۔ کلے نے اپنے بنگلے پر توپیں نصب کر دیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کلے کے ذکر پر کچھ سنا سنا نام ذہن میں آ رہا ہو۔ دونوں میں کوئی تعلق تلاش کر رہے ہوں گے۔ یقینا ایک تعلق ہے۔ مارسیلس کلے کی موت کے کئی عشرے بعد اس کا نام ایک سیاہ فام بچے کو دیا گیا۔ یہ بچہ بڑا ہوا۔ باکسر بنا۔ کلے سے محمد علی ہوا اور دنیا کا عظیم کھلاڑی تسلیم کیا گیا۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جو ہمارے ارد گرد رونما ہوتے واقعات سے جڑی ہیں۔ ڈی کوک نے گھٹنے نہ ٹیک کر وہ کہانیاں یاد دلا دیں۔ ہمارے اردگرد سوال سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ماحولیات، نسل انسانی کے ارتقا، غذا، جنگلات، زمین کی مخلوقات سے متعلق سوال۔ پڑھے لکھے لوگ ان سوالوں کے جواب ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ کئی بار جواب غلط یا نامکمل آتا ہے لیکن جواب دینے والا اور سوال کرنے والا اپنے تجسس کے ہاتھوں تحقیق جاری رکھتا ہے۔ کل ہی ہمارے فیس بک فرینڈ احسن بٹ نے ایک مضمون کا لنک بھیجا۔ اس مضمون کے مطابق کرہ زمین کی مختلف تہوں میں مختلف مخلوقات آباد ہیں۔ زمین کا پاتال کیسا ہے۔ بنیادی طور پر فزکس اور ارتھ سائنس کے ماہرین نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
دوستوں کی مجلس میں ایک نے کہا کہ اس کے خیال میں وسط ایشیا کے لوگوں کی جلد کی رنگت سانولی ہے۔ گندمی اور سرخ ایک لاکھ سال سے دو لاکھ سال پہلے ہونا شروع ہوئی لیکن اس وقت تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قازقستان، آذر بائیجان والی جگہ پر صحرا ہوتے تھے جو سورج کی روشنی کو منعکس کرتے۔ مجلس میں بیٹھے دوسرے دوست نے اس سوال کے کچھ حصے کو مسترد کیا اور بتایا کہ جلد کی رنگت بدلنے کا معاملہ اتنا پرانا نہیں بلکہ 30ہزار برس پہلے کا ہے۔
اس کے بقول وسط ایشیا کے لوگ بنیادی طور پر افریقی ہیں جنہوں نے ساٹھ سے اسی ہزار سال پہلے تک افریقہ کی سکونت ترک نہیں کی تھی۔ اس زمانے میں وسط ایشیا کے کچھ حصے جنگلات پر مشتمل تھے۔ اکثر حصوں پر قد آدم سے بڑی گھاس اگی تھی جہاں چرندوں کے ریوڑ گھوما کرتے۔ ہم چاہیں تو سوالات اٹھا سکتے ہیں، چاہیں تو اپنا علم و ہنر کسی سیاسی جماعت کی چوکھٹ پر ذبح کر دیں لیکن مستقبل جب ہم پر انگلی رکھے گا تو ہم سوال کے آئینے میں کیسے نظر آئیں گے؟