ایک حکمران تھا۔ کہانی یہ سنائی گئی کہ وہ بدعنوان نہ تھا۔ زمانہ شناس اس قدر کہ جب لوگوں کو پلاٹوں کی ہوس نہ تھی اس نے اپنے بھائی اور بیٹے کو اسلام آباد میں پلاٹ الاٹ کئے۔ دس پلاٹ ایسی عورتوں کو دیے جن کی ولدیت یا زوجیت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ 1981ء سے 85ء تک اسلام آبادمیں 76پلاٹ بانٹے گئے۔ مسلم لیگ ن کے ایک دانشور ہیں۔ جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں۔ پی ٹی وی کے چیئرمین بنے تو میانوالی سے ایک لیگی رکن کے ساتھ مل کر پی ٹی وی لائسنس بنانے کا ٹھیکہ مند پسند افراد کو دیدیا۔ ٹھیکہ لینے والے شخص نے کام کرتے ہوئے میانوالی کے بینکوں میں ایک ارب روپے جمع کرائے۔ نواز حکومت ختم ہوئی تو بنکوں سے رقم نکال لی۔ ن لیگی دانشور کو 10کروڑ کا فائدہ ہوا۔ ٹھیکیدار نے چار ماہ میں 80کروڑ کما لئے۔
کے پی کے میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ اور اب اپنی الگ جماعت کے سربراہ کا مہران بنک سکینڈل میں اہم کردار رہا۔ مہران بنک نے انہیں ایک کروڑ روپیہ ادا کیا تو حکم ملا کہ ایک کروڑ اور دیا جائے۔ اس لوٹ مار کی تفصیل مہران بنک کے صوبائی سربراہ حمید اصغر قدوائی کے بیان حلفی میں لکھی ہے۔
پنجاب کے ایک وزیر اعلیٰ دیہی علاقے سے تھے۔ احتساب عدالت نے انہیں برسوں پہلے 5ماہ قید، پچاس لاکھ جرمانہ اور تاحیات الیکشن لڑنے کے لئے نااہل قرار دیا۔ ان صاحب نے ایک دن میں ایک سو دس پلاٹ صحافیوں، وکلاء اور اپنے حامیوں کو الاٹ کئے۔ ان کے وکلا نے بعد میں کہا کہ الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی تھی۔ جس کی وجہ عوامی ردعمل تھا تاہم الاٹمنٹ کینسل کا کوئی ثبوت سامنے نہ آ سکا۔
شیخو پورہ سے ایک لیگی رکن اسمبلی تھے۔ اب سابق ہیں۔ 1990ء میں پہلی بار منتخب ہوئے۔ اس وقت یہ پانچ بھائی اپنے بال بچوں سمیت 8مرلہ مکان میں رہتے تھے۔ پورے خاندان کی 18ایکڑ زرعی اراضی تھی۔ اقتدار میں آئے تو ایک بھائی کو سٹیل ملز کا ڈائریکٹر لگوایا۔ اپنی آئل ملز میں بجلی چوری پکڑی گئی، ٹرانسپورٹ کمپنی بنائی، پولٹری فارم بنائے، الگ کوٹھی خریدی، مارکیٹ بنائی۔ پچاس ایکڑ سے زائد زرعی اراضی خرید لی، متعدد پلاٹ لئے۔
ملتان کے ایک سیاست دان ہیں۔ جنرل نصیراللہ بابر نے سینٹ آف پاکستان میں ایک آڈیو کیسٹ چلا کر مہران بنک کے یونس حبیب کے وکیل اور ان سیاستدان کی گفتگو سنائی۔ گفتگو سے پتہ چلا کہ یونس حبیب نے کروڑوں روپے ایک ایسے اکائونٹ میں جمع کرائے جو اس سیاستدان کے فرنٹ مین کا تھا۔ اوقاف کی اراضی کے معاملات الگ ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رکن ہیں۔ کئی بار وزیر رہے۔ عمران خان نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے ڈی چوک میں دھرنا دیا۔ کنٹینر سے بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان ہوا تو حکومت نے پی ٹی آئی رہنمائوں کے گھروں پر لگے میٹروں کی تعداد گننا شروع کر دی۔ ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ٹیم شاہ محمود قریشی کے گھر پہنچی اور سات میٹر موجود ہونے کی خبر میڈیا کو جاری کی۔ ن لیگی میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس کا خوب چرچا کیا۔ ان ہی دنوں ایک بڑے میڈیا ادارے کا رپورٹر لیگی حکومت کے وزیر کے گھر پہنچا۔ دیکھا کہ تھری فیز کی ایک دو نہیں پوری تین لائنیں وسیع و عریض بنگلے میں جا رہی ہیں اور کسی ایک لائن پر بھی میٹر نہیں۔
رپورٹر کو کھڑا دیکھ کر کچھ گارڈ نما لوگ آئے اور اسے زدوکوب کرتے اندر لے گئے۔ رپورٹر نے اپنا تعارف کرایا۔ سودے بازی کی پیشکش ہوئی۔ انکار کیا گیا۔ آخر منت سماجت پر اتر آئے۔ رپورٹر نہ مانا۔ پونے گھنٹے بعد باہر نکلا تو دیکھا بجلی سپلائی کا عملہ باہر نیا میٹر لگا رہا تھا۔ رپورٹر نے اس کی ویڈیو اور تصویر بنائی۔ دو دن کے اندر اندر بجلی کمپنی نے نئے نصب میٹر پر پرانی تاریخ کا بل بنا کر جاری کر دیا۔ رپورٹر کی محنت اس وقت ضائع ہو گئی جب ادارے نے وفاقی وزیر کے کہنے پر خبر نشر اور شائع کرنے سے معذرت کر لی۔ ایسی ہوتی ہے شرم ایسی ہوتی ہے حیا۔
رائے ونڈ روڈ پر ایک مرحوم رکن اسمبلی کا پٹرول پمپ ہے۔ یہ خاندان کئی بار برسر اقتدار رہا اور پھر سے اقتدار میں آنے کا جتن کر رہا ہے۔ اس پٹرول پمپ کو پچھلے دس سال میں کئی بار تیل کے پیمانے میں گڑ بڑ پر چالان کیا گیا۔ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے۔ یہ سب کہانیاں اس وقت یاد آئیں جب بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں کچے کے ڈاکوئوں کی کہانی پڑھی۔ ڈاکوئوں نے ایک غریب خاندان کا نوجوان اغوا کر لیا۔ گھر کی عورتوں نے قرآن پاک اٹھایا اور ڈاکوئوں کے سامنے پیش ہو گئیں۔ کہا کہ یہی کماتا تھا تو ہم روٹی کھا لیتے۔ اب یہ یرغمال ہے تو ہمارے پاس ایسا کوئی اثاثہ نہیں جو بیچ کر تاوان ادا کر سکیں۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اگر اس کی سفارش قبول ہو تو ہمارے بچے کو رہا کر دو۔ ڈاکوئوں نے وضو کیا، قرآن پاک کو اٹھایا، چوما، آنکھوں کو لگایا اور یرغمالی رہا کر دیا۔
پاکستان میں لو ٹ مار کی ہزاروں کہانیاں ہیں۔ ہر طاقتور نے اپنی بساعت کے مطابق لہلہاتے کھیلوں، جھومتے جنگلات اور گنگناتی ندیوں اوراٹھلاتی نہروں کو لوٹا ہے۔ انتخاب بلدیاتی نمائندوں کا ہو یا اراکین پارلیمنٹ کا، جیتنے والا ملک و قوم کی خدمت کا حلف خدا کو حاضر ناظر جان کر اٹھاتا ہے۔ وہ عہد کرتا ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اپنے کارہائے منصبی انجام دے گا۔ حلف اٹھاتے ہوئے رسول کریمؐ کو اللہ کا آخری رسول تسلیم کرتا ہے۔ عہدہ ملتا ہے تو خاندان اور احباب مٹھائی بانٹتے ہیں۔ پھر مٹھائی بانٹنے والے فرنٹ مین بن جاتے ہیں۔ عوام کی رسائی محدود کر دی جاتی ہے۔
جو کام کرانا ہو وہ فرنٹ مین کے ذریعے سے ہو گا۔ دولت میں اضافہ ہونے لگتا ہے، گاڑیوں کی تعداد اور ماڈل بدل جاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ اور بچوں کا لائف سٹائل تبدیل ہو جاتا ہے۔ حلف کے الفاظ پھیکے پڑ جاتے ہیں، اللہ کو حاضر ناظر جاننے کا یقین جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ ریاست سے وفادار رہنے کی بجائے لالچ اور ہوس کے غلام ہو جاتے ہیں۔ یہ سب پاکستان بنتے ہی شروع ہو گیا اور اب تک جاری ہے۔ واہ رے کچے کے ڈاکوئو تم کتنے اچھے ہو۔ قرآن پاک دیکھ کر تمہارے سفاک دل موم ہو گئے، جانے وہ پتھر کب پگھلیں گے جو ریاست پاکستان کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں!