کھیل سماج کو مثبت اقدار عطا کرتی ہیں۔ ہم سیاست کے ذریعے اچھی اخلاقیات تلاش کرتے ہیں اس لئے سیاست اور کھیل کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالیہ اولمپکس میں قطر اور اٹلی کے کھلاڑیوں کے درمیان ہائی جمپ میں گولڈ میڈل کا مقابلہ پڑ گیا۔ دونوں کھلاڑی بلندی تک کودنے کی ایک ہی حد 2.37 میٹرکو پار کر چکے تھے۔ آفیشلز نے بار کو مزید اونچا کر دیا۔ پہلی باری اٹلی کے کھلاڑی گیان مارکو کی تھی۔ اس نے جونہی دوڑنا شروع کیا، پائوں مڑ گیا، موچ آنے کی وجہ سے مقابلے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا، قطر کے کھلاڑی مطاز عیسیٰ نے ضابطے کے تحت اپنی باری پر جست لگانے سے انکار کردیا۔ کھیل کے اصول کے تحت قطری کھلاڑی اگر بار کو عبور کر لیتا تو وہ تنہا گولڈ میڈل جیت لیتا لیکن خیر کی تعلیمات اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ بنا مقابلہ گولڈ میڈل کو قبول نہ کیا جائے۔ قطری کھلاڑی نے اعلان کیا کہ وہ ریٹائر ہونیوالے اٹالین کھلاڑی کیساتھ سنہری میڈل میں شراکت داری چاہتا ہے۔ اس کی ضد پر انتظامیہ نے دونوں کو مشترکہ طور پر گولڈ میڈل کا حقدار قرار دیدیا۔ کیا ایسی مثال کوئی جنگجو دکھا سکتا ہے، کوئی بینکر، کوئی افسر، کوئی سیاست دان؟
پاکستان کی کھیلوں میں کارکردگی پر تنقید کو اگر اولمپک ایسوسی ایشن، کھیلوں کی تنظیموں، عہدیداروں اور حکومت پر تنقید کہا جائے تو زیادہ بہتر انداز میں معاملات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کھلاڑیوں کی تیاری نہ تھی، اچھے کوچ اور خوراک میسر نہ تھی اور کسی محکمے کی جانب سے اخراجات اٹھانے کی سولت نہ ہونے کے باوجود طلحہ طالب اور ارشد ندیم نے متاثر کیا۔ ارشد ندیم نے خاص طور پر پاکستان میں نیزہ پھینکنے کو پہلی بار اس قدر مقبولیت دلائی کہ بہت سے بچے اب نیزہ پھینکنے کی مشق کرنے کو تیار ہیں۔
کھیلوں سے وابستہ افراد کھیل سے زیادہ اپنے مفادات کی جیت چاہتے ہیں۔ عجیب ہٹ دھرمی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن دکھا رہی ہے۔ اولمپک ایسوسی ایشن کے آئین میں کہا گیا ہے کہ کوئی فرد دو بار سے زاید صدر نہیں بن سکتا۔ صدر کی ایک مدت چار سال پر محیط ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عارف حسن اس ضابطے سے خود کو ماورا سمجھتے ہیں۔ پچھلے پندرہ برس سے صدر ہیں۔ ان کی قبضہ گیری سے تنگ دوسرے دھڑے نے خود کو منظم کیا۔ اس دھڑے کے سربراہ میجر جنرل(ر) اکرم ساہی ہیں۔ اکرم ساہی اتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں اتھلیٹکس میں دوڑنا، ہائی جمپ، لانگ جمپ، ڈسک تھرو، گولہ پھینکنا، نیزہ پھینکنا وغیرہ شامل ہے۔ اولمپک ایسوسی ایشن کا وہ دھڑا جس نے ارشد ندیم کو منتخب کیا اس کے سربراہ اکرم ساہی ہیں، پورے اولمپک دستے میں ارشد ندیم واحد کھلاڑی تھے جنہیں کسی وائلڈ کارڈ یا حوصلہ افزائی میرٹ پر نہیں بلکہ خالص کارکردگی کے میرٹ پر اولمپک مقابلوں میں شریک کیا گیا۔ ارشد ندیم اور طلحہ طالب دونوں نے پانچویں پوزیشن حاصل کی لیکن فرق یہ ہے کہ ویٹ لفٹنگ کی ہر ویٹ کیٹگری میں پانچویں پوزیشن ہو گی مگر جیولن تھرو میں ایک ہی کیٹگری ہوتی ہے۔ یوں ارشد ندیم پوری دنیا میں نیزہ پھینکنے والوں میں پانچویں پوزیشن پر آ گئے۔ روائت یہ ہوتی ہے کہ دستے کے سب سے نمایاں کارکردگی والے کھلاڑی کو پرچم برداری کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ جنرل عارف حسن شائد اکرم ساہی گروپ کو پرچم نہیں دینا چاہیے تھا اس لئے ارشد ندیم کو یہ موقع نہ مل سکا۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن میرٹ کا قتل کیسے کرتی ہے اس کی مثال طلحہ طالب کے ساتھ بطور کوچ جانے والے حافظ عمران بٹ ہیں۔ عمران بٹ ویٹ لفٹنگ کے کوچ نہیں بلکہ اس کھیل کی ایسوسی ایشن کے عہدیدار ہیں۔ کمسن طلحہ طالب کو اگر کسی تجربہ کار کوچ کی سرپرستی اور مدد حاصل ہوتی تو وہ اپنی تین باریوں میں سے ایک ضائع نہ کرتا۔ ایک خبر یہ آئی کہ کھیل چھوڑ جانے والی نجمہ پروین کو محض اس وجہ سے دستے میں شامل کیا گیا کہ ایک آفیشل نے اس کی آڑ میں دورے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ہمارے سوئمرز کے تو لطیفے بن گئے۔ ایک لطیفہ یہ ہے کہ اولمپک سے واپسی پر ایسوسی ایشن کے صدر نے کوچ پر اظہار ناراضی کیا۔ میڈل نہ جیتنے پر خفگی دکھائی تو کوچ نے کہا ؛سر شکر کریں یہ ہارے ہیں، ڈوب نہیں گئے۔
وفاق نے بجٹ میں کھیلوں کے لئے 6ارب روپے رکھے ہیں۔ پنجاب حکومت نے 2ارب روپے سے زاید مختص کر رکھے ہیں۔ لاہور میں نیشنل ٹریننگ اینڈ کوچنگ سنٹر فیروز پور روڈ، مینار پاکستان سے ملحق سپورٹس کمپلیکس، چونگی امرسدھو کے پاس واپڈا سپورٹس کمپلیکس اور جوہر ٹائون میں سپورٹس سنٹر کے سوا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لڑکیاں کھیلوں کی مشق کر سکیں۔ بچیاں گھر اور سکول کے سوا کسی سرگرمی سے واقف نہیں۔ میں نے مناہل کو اولمپک مقابلوں کے دوران مختلف کھیلوں سے واقف کرایا ہے۔ وہ اب ضد کر رہی ہے کہ اسے بیڈ منٹن کا سامان لا کر دوں۔ میں سوچ رہا ہوں گھر میں اتنی گنجائش نہیں، گلی میں کھیل نہیں سکتی، سپورٹس سنٹر کافی دور ہیں پھر یہ بھی کہ بنا کوچ کے کوئی بھی کھیل آپ کو نمایاں نہیں بنا سکتا۔ پچھلے ایک کالم میں کہہ چکا ہوں کہ پانچویں پوزیشن کچھ نہیں ہوتی۔ ارشد ندیم اور طلحہ طالب نے بنا کسی مدد کے بہت محنت کی۔ جن پرخلوص لوگوں نے ان کھلاڑیوں کی کسی بھی طرح سے مدد کی وہ قابل قدر ہیں لیکن اصل مسئلہ کھیلوں کے ڈھانچے کو بہتر بنانا ہے۔ وزیر اعظم میری معروضات پر تسلیم کر چکے کہ تین سال کھیلوں کو نظر انداز کر کے انہوں نے غلطی کی اور وہ اگلے دو سال میں یہ غلطی سدھار دیں گے۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ بھارت کی توپوں میں بہت سے کیڑے پڑنے کی بددعا کرتے ہوئے مجھے اچھا لگا جب ان کی ہاکی ٹیم نے 49 سال بعد کانسی کا سہی اولمپک میڈل تو جیتا ہماری ہاکی ٹیم جانے اگلے 50 سال میں پھر کوئی میڈل جیت پائے یا پھر ہمیں کئی زندگیاں انتظار کرنا پڑے۔ نیرج چوپڑہ کی ایک ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ جسم میں لچک اور طاقت پیدا کرنے کی ورزشیں کر رہا ہے، بے چارے ارشد ندیم کے لئے یہ ورزش اور سہولیات ایک خواب ہیں۔ حکومت کسی روز خواب سے بیدار ہو گئی، بچوں نے گراونڈز کے لئے احتجاج شروع کر دیا اور کھیلوں پر براجمان ناگ رخصت ہو ئے تو ممکن ہے ہم بھی کوئی میڈل جیت لائیں۔