Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bhutto Reference, Aik Bareek Nuqta

Bhutto Reference, Aik Bareek Nuqta

بھٹو کیس پر صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہو چکی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر پڑھی تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔

نظام انصاف کا عالم دیکھیے، صدر آصف زرداری نے یہ ریفرنس فائل کیا، ان کا دور صدارت ختم ہوگیا مگر ریفرنس پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ پھر ممنون حسین آئے، وہ چلے گئے تو عارف علوی آئے اور اب یہ امکان دستک دے رہا ہے کہ آصف زرداری ایک بار پھر صدر بن جائیں گے۔ کوئی ہے جو سوچے کہ ریفرنس پر فیصلہ آتے آتے اتنا وقت کیوں لگ گیا؟

ایک صدر آئین کے مطابق ریفرنس بھیج کر رائے مانگے اور رائے آنے تک، معاف کیجیے رائے محفوظ ہونے تک، تین صدور اپنی مدت گزار کر جا چکے ہوں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ صدر پاکستان نے جب رائے مانگی تو جناب افتخار چودھری چیف جسٹس تھے۔ چودھری صاحب ریٹائر ہو گئے، ان کے بعد تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک، جواد ایس خواجہ، انور ظہیر جمالی، ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، عمر عطا بندیال یعنی کل دس معزز چیف جسٹس صاحبان ریٹائر ہو گئے لیکن صدارتی ریفرنس کا جواب نہیں دیا سکا۔

آئین کی سربلندی کی یہاں بہت باتیں ہوتی ہیں، سوال یہ ہے کیا صدر پاکستان کی جانب سے آئین پاکستان کے تحت بھیجے گئے ریفرنس کا بروقت جواب دینا بھی آئینی تقاضا نہیں تھا؟

اس وقت آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے اور جناب بابر اعوان وزیر قانون۔ صدر پاکستان نے سپریم کورٹ میں بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس فائل کیا تو وزارت قانون نے اس کیس میں مجھے بھی معاون وکیل کے طور پر منتخب کرنے کا عندیہ دیا۔ انکار کی گنجائش ہی نہ تھی، میرا تو یہ دلچسپی کا موضوع تھا۔ بطور معاون وکیل جب میں نے اس کیس کا مطالعہ شروع کیا تو حیرتوں کے جہاں مجھ پر وا ہوتے گئے۔

اتنا تو مجھے اندازہ تھا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اس ناانصافی کا اندازا شدید ہوگا اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جس جج کو بھٹو نے ترقی نہیں دی تھی وہ ناراض ہو کر رخصت پر بیرون ملک چلا جاتا ہے، اس دوران ملک میں مارشل لاء لگتا ہے۔ اسی جج کو بلا کر چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔ وہ جج نجی محفلوں میں کہتا ہے بھٹو کو چھوڑوں گا نہیں۔ بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کرتا ہے تو کہتا ہے سوچ کر ووٹ دیا کرو ورنہ تم پر بھٹو جیسے لوگ مسلط ہوتے رہیں گے۔ چیف جسٹس صاحب کے لہجے میں تعصب اور نفرت صاف عیاں ہے۔ انصاف کا تقاضا ہوتا ہے کہ نفرت کے ایسے جذبات ہوں تو مقدمہ نہیں سننا چاہیے اس سے الگ ہو جانا چاہیے۔ لیکن یہاں مقدمہ سنا جاتا رہا۔

بھٹو درخواست کرتے ہیں آپ متعصب ہیں اس لیے یہ کیس نہ سنیں، جواب آتا ہے آپ کی درخواست مل گئی پہلے کیس کا فیصلہ کر لیں پھر آپ کی درخواست کو بھی دیکھ لیں گے۔ مقدمے کا فیصلہ آ گیا، بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، معلوم نہیں اس درخواست کا کیا بنا؟ بار بار منصب انصاف سے ارشاد ہوتا ہے تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟ تم ہو کیا چیز؟ تم خود کو سمجھتے کیا ہو۔

سیلن زدہ کوٹھری میں بھٹو کو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ درخواست آتی ہے سماعت ملتوی کر دی جائے، سرکاری ڈاکٹر بھی کہتا ہے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ لیکن درخواست قبول نہیں کی جاتی۔ سرکاری ڈاکٹر کی گواہی بھی رد کر دی جاتی ہے۔ انصاف بہت عجلت میں ہوتا ہے۔

جو جج بھٹو کی ضمانت لیتے ہیں ان کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے راستے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ بھٹو کو عدالت محض نام کا مسلمان کہتی ہے۔ بھٹو اس پر احتجاج کرتے ہیں لیکن عدالت اپنے الفاظ پر نادم نہیں ہوتی۔ بھٹو کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی ایک معمہ ہے۔ اس پر چار اپریل کی بجائے تین اپریل کی تاریخ ڈلی ہے۔ پھر ایک جگہ پر کاٹ کر کچھ ٹھیک کیا گیا ہے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر ڈاکٹر کے دستخط ہی موجود نہیں۔

کافی وقت ہوگیا۔ کچھ چیزیں یاد ہیں، کچھ بھول گئیں۔ بھٹو کیس کا سارا ریکارڈ میرے پاس رکھا تھا مگر بعد میں یہ تمام فائلز برادرم وجاہت مسعود کو بھجوا دیں کہ میرے پاس پڑی رہتیں تو ضائع ہو جاتیں۔ اب انحصار یادداشت پر ہے، فائلز پاس ہوتیں تو اور بات ہوتی پھر یہ کہانی تفصیل سے لکھ پاتا۔

میری نسل کے ساتھ دائیں بازو کے دانش وروں نے بڑا ظلم کیا۔ ایک پوری نسل بھٹو سے نفرت میں پروان چڑھی۔ بھٹو کی برسی آتی ہے تو اپنے بچپن کے دن یاد آ جاتے ہیں۔ کس شرح صدر کے ساتھ ہم کندھے اچکا کر کہہ دیا کرتے تھے: بھٹو تو اسلام کا دشمن تھا۔

جب میں نے اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کی کلاس میں داخلہ لیا تو ملک معراج خالد یہاں کے ریکٹر تھے۔ ان کا تعلق پی پی پی سے تھا اور میں صالحین کے گاؤں سے آیا اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا امیر المومنین تھا۔ پہلا سوال ہی امیر المومنین صاحب نے یہ سوچا: اسلامک یونیورسٹی میں پیپلز پارٹی کے ملک معراج خالد کا کیا کام؟

ایک شام میں اورافتخار سید ملک معراج خالد کے گھر گئے تو اندر سے قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ ملک صاحب کے سارے احترام کے باوجود میں نے حیرت سے پوچھا: افتخار یار یہ تو مذہبی آدمی ہیں۔ افتخار نے طنزیہ کہا: نکے (چھوٹے)امیر المومنین صاحب کسی اور کو بھی مسلمان سمجھ لیا کرو۔۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ تب پہلی دفعہ میں نے سوچا، ہماری پوری ایک نسل نفرت میں پروان چڑھائی گئی۔

ایک روز ملک معراج خالد نے مجھے ایک کتاب دی اور کہا: اسے ضرور پڑھنا۔ کتاب کا نام تھا "The Myth of Independence"۔ یہ ایک نئے بھٹو سے میرا تعارف تھا۔ اس بھٹو کو تو میں جانتا ہی نہ تھا۔ کتاب پڑھتے بار بار یہ خیال آتا رہا: اگر یہ کتاب بھٹو کی ہے تو بھٹو سے نفرت کیسے کی جا سکتی ہے۔۔ اپنا گاؤں یاد آیا۔ ساتھ وہی خیال پھرآیا کہ ایک پوری نسل نفرت اور جہالت کی بھینٹ چڑھ گئی۔

اب یہ خبر پڑھی کہ بھٹو ریفرنس کا فیصلہ محفوظ ہوگیا ہے تو تسلی ہوئی کہ اب بہت جلد اس پر عدالت کی رائے سامنے آ جائے گی۔

یاد رہے کہ ریفرنس میں صرف یہ نہیں پوچھا گیا تھا کہ کیا بھٹو کو سنائی گئی سزا درست تھی یا غلط۔ ریفرنس میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ اگر سزا درست نہیں تھی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ یہی وہ نکتہ تھا جہاں بات پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ سماعت کے دوران جناب افتخار چودھری نے ایک موقع پر یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر ہم یہ کہ دیں کہ یہ ایک اچھا ٹرائل نہیں تھا تو کیا اتنا کہہ دینا کافی ہوگا؟ بابر اعوان اس وقت وکیل تھے انہوں نے کہا یہ کافی نہیں ہوگا، نتائج پر بھی رائے درکار ہے۔ نتائج والی بات بہت غور طلب ہے۔ سزا اگر غلط تھی تو جنہوں نے غلط سزا دی نتائج کا تعلق ان سے ہے اور یہ بہت باریک نکتہ ہے۔ بات بھٹو صاحب تک نہیں رہے گی آ گے تک جائے گی۔ دیکھیے کیا فیصلہ آ تا ہے۔