Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Falasteen, Hamare Shayar Aur Adeeb Kahan Hain?

Falasteen, Hamare Shayar Aur Adeeb Kahan Hain?

غزہ برباد ہو چکا ہے اور تیس ہزار لوگوں کے جسم مقتل میں پڑے ہیں لیکن نہ کوئی نظم لکھی گئی نہ کوئی نوحہ بلند ہوا، نہ کوئی فسانہ لکھا جا سکا نہ کوئی کہانی۔ سوچتا ہوں، ہمارے شاعر اور ادیب کہاں ہیں؟ حفظ مراتب میں قلم بھاری ہو رہا ہے ورنہ میں لکھنا تو یہ چاہتا تھا کہ یہ کہاں مر گئے ہیں؟

ہم پہلے دن سے تو یوں نامراد نہیں تھے۔ یہ سکوت مرگ نیا نیاہے۔ مشرقی یروشلم پر جب اسرائیل نے قبضہ کیا توہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اس غم کو مجسم کر دیا۔ آج ننھے بچوں پر قیامت ٹوٹی پڑی ہے اور ہمارے منفرد لہجے کے شاعروں، شہرہ آفاق ادیبوں اور حتی کہ مذہب فروش تجزیہ کاروں تک سب گونگے شیطان بن چکے ہیں۔ کیا بایاں بازو اور کیا دایاں بازو، سب میں اس گونگے پن پر ایک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سب لاتعلق ہیں۔ سب مزے میں ہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں اس کی وجہ کیا ہے۔ محمود درویش نے لکھا تھا: درد کی صلیب پر شاعر کا زخم تارے کی طرح روشن ہے۔ میں حیران ہوں کہ میرا شاعر اور ادیب درد کی صلیب سے کیسے اتر آیا۔

اسی کی دہائی میں ایک فلسطینی بچی کا دکھ محسوس کرتے ہوئے فیض نے اس کے لیے پوری لوری ہی لکھ دی تھی:

"مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی

چاند اور سورج

روئے گا

تو اور بھی تجھ کو رلوائیں گے تو مسکائے گا تو پھر

سارے اک دن بھیس بدل کر

تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے"

آج مگر یہ عالم ہے کہ ہزاروں معصوم ننھے وجود ٹکڑوں کی صورت بکھرے پڑے ہیں مگر کسی شاعر کے پاس ان کے لیے کوئی لوری نہیں۔

اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست پر احمد ندیم نے روشنی کی تلاش، میں سوال اٹھایا: اب کہاں جائو گے، اے دیدہ ورو۔ فلسطینی مجاہدین کا قتل عام ہوا تو اردن، کے عنوان سے لکھی نظم میں احمد ندیم قاسمی نے کیا نوحہ لکھا: "ہم سب لہو کے اس دشت میں کھڑے سوچتے ہیں جو ہاتھ ہم پہ اٹھے ہمارے ہی ہاتھ تھے مگر ان میں کس کے خنجر تھے"۔ ابنِ انشاء کی دیوارِ گریہ، کا تو جواب نہیں۔ سب کچھ ہی اس نظم میں کہہ دیا گیا ہے۔ جون 67 کی جنگ میں منظور عارف کی نظم آئینے کے داغ، میں بیان ہوا وہ کرب: اتنا ٹھنڈا کبھی صحرا تو نہ تھا۔ منظور عارف ہی کی نظم قبلہ اول، کا وہ اختتام: آتش بازو! کوئی عقیدہ اور نظریہ، آگ میں کیسے جل سکتا ہے، یہ تو اس میں کندن بن کر اور دمکنے لگتا ہے۔ اسی جنگ میں فیض احمد فیض نے سر وادی سینا، میں لکھا: یہیں سے اٹھے گا روز محشر، یہیں پہ روزِ حساب ہوگا۔

حبیب جالب کی الفتح کے جوانو۔ احمد فراز کی بیروت، سے ٹپکتا وہ درد کہ "خرم سرائوں میں خوش مقدر شیوخ چپ، بادشاہ چپ ہیں"۔ ضمیر جعفری کی لیلی خالد، شہزاد احمد کی حسین کا سبق، کہ ہم کو تو مسجد اقصی بھی ہے قرآں کا ورق۔ محمود شام کی بنت اقصی، رئیس امروہی کی فدیہ، زاہد ملک کی امڈے سیلاب ذرا ٹھہر! ، فیروز شاہ کی کامران لہو کی بشارتیں، بلقیس محمود کی پکار، سلطان رشک کی ضربِ کاری، حسن عباس رضا کی ابھی علم پھڑ پھڑ ا رہے ہیں، احمد شمیم کا موت سے پہلے نوحہ۔۔ یہ سب ان وقتوں میں شاعروں کا درد تھا جو لفظوں کی صورت سامنے آیا۔

ہمارے ادیب بھی شاعروں کے ساتھ تھے۔ مشرقی یروشلم پر قبضہ ہوا تو انتظار حسین نے لکھا: جہاں ہمارے حضو ر ﷺ بلند ہوئے تھے وہاں ہم پست ہو گئے"۔ انتظار حسین کا افسانہ کانا دجال، پڑھیں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ انتظار حسین ہی کا شرم الحرم، بھی دل کے تار ہلا دیتا ہے"ہم سب عربوں کی مائیں ہم سب کے سوگ میں بیٹھیں کہ ہماری تلواریں کند ہوگئیں اور ہم نے انہیں نیاموں میں ڈال لیا۔ عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں سوتے ہیں۔ جو مارے گئے وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے۔ عرب کے بہادر بیٹے بلند و بالا کھجوروں کی مانند زمینوں میں پڑے ہیں، صحرا کی ہوائوں نے ان پر بین کیے، گرد کی چادر میں ان کی تدفین ہوئی، عرب کے سب صحرائوں کی خاک میرے سر میں عرب کی غیرت مر گئی، کاش میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوئوں کا سوتا ہوتیں کہ تا عمر روتا رہتا"۔

قدرت اللہ شہاب نے اے بنی اسرائیل، لکھا اور حق ادا کر دیا۔ "اے بنی اسرائیل! یاد رکھو، اس عرب بچی کا سہما دل اور اس کی غمزدہ ماں کی دبی ہوئی آہ تمہارے سر پر کوہ طور سے بھی زیادہ خطرناک پہاڑ کی طرح لٹک رہی ہے، اگرخدا اپنی بات کا سچا ہے تو تم امریکہ اور انگلستان میں دھلے ہوئے سونے اور چاندی کے بچھڑوں کی جس قدر چاہے پوجا کرو لیکن خدا کا جو چکر تمہارے پائوں میں پڑا ہوا ہے اس سے تمہیں نجات نہیں مل سکتی"۔

مظہر الاسلام کا افسانہ زمین کا اغوا، بھی دل کا درد ہے: "یہ علاقہ میرا ہے، یہ زمین میری ہے اور یہ اونٹنی اس قوم کی گواہی دیتی ہے کہ اس نے آج تک اپنے وطن کی سرحدوں سے بغاوت نہیں کی"۔

سمیع آحوجہ نے تتلی کا جنم، کیا لکھا، لہو رلا دیا۔ باپ گھر کے باغیچے میں بیٹی سے اور بیٹی تتلی سے کھیل رہی ہے اور پھر ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ "دوڑو دوڑو دریا کی طرف دوڑو میری بیٹی، ابو میری تتلی؟ ارے پگلی چھوڑ اسے بھاگ۔ وہ پلٹ کر تتلی کے پیچھے گھر کو بھاگی اور اس کے پیچھے بانہیں پھیلائے اس کی ماں۔ ابو ابو مگر میری تتلی۔ اس کے الفاظ ابھی ہونٹوں سے پھوٹے ہی تھے کہ۔۔ ایک اور دھماکہ۔ گوشت کے چھوٹے بڑے پارچے، بارود کی بو، مٹی کے غبار، اور ملبے کے ڈھیر میں غرق ہو گئے۔ میری بچی"۔

اور پھر قرۃ العین حیدر کا یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے،۔ "اے میرے رب میری حفاظت کر، میری نائو چھوٹی سی ہے اور تیرا سمندر بہت بڑا"۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ خانہ بدوش،۔ درد میں ڈوبا کتنا سرد اختتام تھا اس کا۔ "میں سینکڑوں فلسطینیوں سے مل چکا تھا مگر احمد ایک مختلف انسان تھا۔ وطن اس کے لیے اغواء شدہ بچہ تھا جو جذباتی ہونے سے نہیں مل سکتا تھا۔ اس کی تلاش میں اس کے نقش نہیں بھولنے تھے اور ایک سرد منصوبہ بندی سے خرکار کیمپ تک پہنچا تھا۔ وہ بچہ احمد ایسے لوگوں کا انتظار کر رہا ہے"۔

آج مگر ہر سو خاموشی ہے۔ جون کے قبرستان جیسا سناٹا۔ بایاں بازو فلسطین پر اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اب اس بیانیے کی سرپرستی کرنے کے لیے کوئی سویت یونین نہیں رہا۔ اور دایاں بازو بے چارہ اپنے فیس بک اکائونٹ کے پہرے دے رہا ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ فلسطینی بچے سڑکوں پر بکھر گئے تو کیا ہوا مائیں اور بچے پیدا کر لیں گی لیکن ہمارے فیس بک اکائونٹ متاثر نہیں ہونے چاہییں۔ یہ متاثر ہو گئے تو قیامت آ جائے گی۔

محمود درویش نے کہا تھا: کل شئی، سوی الندم۔ یعنی ہر ایک چیز سوائے ندامت کے۔ آج مگر ہمارا عالم یہ ہے کہ: کچھ بھی نہیں سوائے ندامت کے۔