Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mushkil Faislay Sirf Aam Aadmi Ke Liye Kyun?

Mushkil Faislay Sirf Aam Aadmi Ke Liye Kyun?

وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہائوس کے ملازمین کے لیے چار اضافی تنخواہوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس ملک میں کوئی فرد یا کوئی ادارہ ہے جو جناب وزیر اعظم سے سوال کر سکے کہ کیوں؟

اس فیاضی کی ٹائمنگ، دیکھیے۔ اہل دربار میں یہ مراعات اس وقت بانٹی جا رہی ہیں جب وزیر اعظم امریکہ جانے کی تیاری کر رہے تھے تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کر سکیں اور اسے آمادہ کر سکیں کہ میرا ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اس لیے دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ای بوٹالائے گا۔ دربار میں سے کوئی ہے جو رہنمائی فرما سکے کہ کیا امریکہ کے حکمرانوں کے پاس بھی ایسے اختیارات ہیں کہ جب جہاں اور جسے چاہیں قومی خزانے سے نواز دیں؟

ان چار تنخواہوں کو مال مسروقہ کی طرح بانٹ دینے کی شان نزول بھی سن لیجیے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ چار تنخواہیں ان افسران کو ان کی غیر معمولی کاوشوں کے صلے میں دی جا رہی ہیں۔ ابھی حکومت کو قائم ہوئے مبلغ ایک مہینہ ہوا ہے۔ چار مارچ کو وزیر اعظم نے حلف لیا ہے۔ اس ایک مہینے میں ان افسران نے ایسی کون سی شاندار کارکردگی دکھا دی ہے کہ انہیں چار ماہ کی اضافی تنخواہ دی جا رہی ہے؟ کیا دنیا میں کہیں ایسے تماشے کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ماہ کی مدت میں افسران کی کارکردگی جانچ بھی لی جائے اور انہیں نواز بھی دیا جائے؟ کیا وزیر اعظم سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کون سی غیر معمولی کاوشیں ہیں جو ان افسران نے انجام دی ہیں؟

کابینہ تو ایسا سوال پوچھنے کی گستاخی یقینا نہیں کرے گی لیکن کیا عدالت یہ سوال پوچھ پائے گی؟ کیا یہ عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں ہے؟ اگر عتیقہ اوڈھو کے بیگ سے نکلی مبینہ بوتل پر نوٹس لیا جا سکتا ہے، اگر چپل کباب میں گوشت کی مقدار کم ہونے پر از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے ا ور اگر اسلام آباد میں سموسوں کی قیمت پر از خود نو ٹس لیا جا سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسے اہم اور سنگین معاملات پر نوٹس نہیں لیا جاتا؟

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور اہل اقتدار کی غیر سنجیدگی ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ خبر یہ ہے کہ افسران کو اس اضافی تنخوہ کی ادائیگی کے لیے بنکوں سے 23 فی صد شرح سود پر قرض لیا جائے گا۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ملازمین کی تین اضافی مکمل تنخواہوں کو ختم کر رہے ہیں اور اسے ایک تنخواہ اور وہ بھی بیسک یعنی بنیادی تنخواہ تک محدود کر دیا گیاہے کیونکہ ملک کی معاشی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی اور یوں قریب 41 کروڑ کی بچت ہو رہی ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم ہیں جو قرض مانگنے جا رہے ہیں اور جاتے جاتے بنکوں سے قرض لے کر افسران کو ایک یا دو نہیں پوری چار ماہ کی اضافی تنخواہیں دے رہے ہیں اور چار ماہ کی یہ اضافی تنخواہیں صرف ایک ماہ کی کارکردگی پر دے رہے ہیں۔ ملا نصیر الدین زندہ ہو جائے تو اس شاندار طرز حکومت کو دیکھ کر سر پیٹ کر مر جائے کہ اس کا تو نام ہی بد نام ہے، اصل اہل ہنر تو اب آئے ہیں، ووٹ کو عزت دینے۔

خراب معاشی حالت کے نام پر، عوام کے لیے زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔ لوگ سوال کریں تو سرد اور سفاک لہجے جواب دیتے ہیں کہ ملک کی خاطر سخت فیصلے لینا ضروری ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سخت فیصلے اگر ضروری ہو چکے ہیں تو ان کے نشانے پر صرف عام آدمی کیوں ہے؟ یہ سخت فیصلے اشرافیہ کی دہلیز پر دستک کیوں نہیں دیتے؟ جو ڈیشل الائونس کے نام پر عدالتی اہلکار اپنے سکیل سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ کیوں؟ خوشی ہے کہ جناب چیف جسٹس نے اسی سوال کو مخاطب بنایا ہے اور خوش آئند فیصلہ کیاہے۔ لیکن ابھی مزید اچھے فیصلوں کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ کا ایک جج ریٹائر منٹ کے بعد بنیادی تخواہ کی قریب 80 فی صد پنشن اور مراعات کی شکل میں وصول کرتا ہے، سوال ہے کہ کیوں؟ کیا پنشن کا یہ اصول تمام سرکاری ملازمین کے لیے ہے؟ حالت ہر طرف یہی ہے حکومت اور عدلیہ کا معاملہ ا لبتہ اس لیے مختلف ہے کہ ایک ادارہ فیصلہ ساز ہے ا ور دوسرے ادارے نے انصاف دینا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی ذمہ داری بھی دوہری ہے۔ سرخرو البتہ کوئی بھی نہیں ْ۔ ملکی وسائل کو امانت نہیں مال غنیمت سمجھ لیا گیا ہے۔

اگر مشکل فیصلے ضروری ہیں تو بتایا جائے اسلام آباد کے شفا ہسپتال کو ڈھائی ایکڑ سرکاری زمین محض ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے کیوں الاٹ کی گئی؟ ماضی میں ہوگیا تو اب اس کی اصلاح کیوں نہیں کی جاتی؟ اس سے مارکیٹ ریٹ کیوں نہیں لیا جاتا؟ یہ ہسپتال جس علاقے میں ہے یہاں ایک مرلے کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ جو ریلیف اس ہسپتال کو دیا گیا یہی رقم پمز یا پولی کلینک جیسے سرکاری ہسپتالوں پر لگائی جاتی تو کم از کم لوگوں کو" شفا " تو ملتی۔

اگر مشکل فیصلے لینے ہیں تو بیوروکریسی اور اشرافیہ کا اسلام آباد کلب سرکاری زمین پر کیوں؟ اگر یہ سرکاری زمین پر ہے تو اس سے مارکیٹ ریٹ کیوں نہیں لیا جاتا؟ کیا اس بندر بانٹ کا کوئی جواز ہے کہ اس کلب کو 224 ایکڑ زمین صرف ایک روپے فی ایکڑ پر سالانہ پر الاٹ کی جاتی؟ بعد میں جب شور مچا توکہا گیا ہم اس ریٹ پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ نظر ثانی یہ ہوئی کہ 2018 میں یہ گیارہ روپے فی ایکڑ کر دی گئی۔

سرینا ہوٹل کے ساتھ ریڈ زون کے پہلو میں 244 ایکڑ زمین کیا صرف 11 روے فی ایکڑ سالانہ پر دی جانی چاہیے تھی؟ سخت فیصلہ عوام کو دیکھ کر تو ہنہنانے لگتا ہے، یہ سخت فیصلہ اپنی قوت قاہرہ کے ساتھ اشرافیہ اور افسر شاہی کی جانب رخ کیوں نہیں کرتا؟ اگر مشکل فیصلے ہی لینے ہیں تو اسلام آباد کلب کے ساتھ ہی گنز کلب ہے۔ اسے گنز اینڈ کنٹری کلب کہا جاتا ہے۔ اس کو 72 ایکڑزمین لیز پر دی گئی ہے۔ حکومتوں نے از رہ مروت اس کلب سے اس زمین کا ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا اور یہ سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ یہ زمین اس کلب کو مفت دی گئی ہے۔ کسی نے ٹوکن کے طور پر ایک روپیہ لینے کی زحمت بھی نہیں۔ ساتھ ہی پاکستان گالف فیڈریشن کو 150 ایکڑ زمین دی گئی ہے۔

یہ وہ کھیل ہے جو ملک میں کوئی بھی نہیں کھیلتا۔ صرف افسران کھیلتے ہیں اور وہ بھی افسر بن جانے کے بعد۔ اس فیڈریشن کو یہ 150 ایکڑ زمین صرف 2 اعشاریہ 41 روپے فی مربع فٹ سالانہ پر لیز دی گئی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھیے اور سوچیے کیا اس کا مارکیٹ ریٹ یہی ہے؟ یہ ایک شہر کی ایک گوشے کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ مراعات کا یہ سمندر ہر شہر سے گزر رہا ہے۔ مشکل فیصلے کبھی اس سمندر کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔ وہ صرف عوام کی پشت پر برستے ہیں۔