Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tehreek e Insaf, America Aur Azadi

Tehreek e Insaf, America Aur Azadi

کیا امریکہ سے آزادی کی جدوجہد امریکہ کی مدد سے آگے بڑھے گی؟ میری مجال نہیں، میں تحریک انصاف کی خدمت میں یہ سوال رکھ سکوں، تحریک انصاف اگر خود سے اس سوال پر غور کرنے پر مائل ہو سکے تو یہ اس کی میانہ روی ہوگی ا ور عین نوازش بھی ہوگی۔

تحریک انصاف کا بنیادی بیانیہ رومان میں لپٹاہے۔ اس کے مطابق تحریک انصاف امریکی دبائو سے آزادی چاہتی ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ جب جب دبائو آیا تحریک انصاف نے ایبسولیوٹلی کہہ کر اس دبائو کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ رجز پڑھے جاتے ہیں کہ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہا تھا: کیا ہم تمہارے غلام ہیں کہ جو تم چاہو ہم وہی کریں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ملک کی معلوم تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ جو عدم اعتماد تھی یہ اصل میں امریکی سازش تھی کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہو جو اس کی ڈکٹیشن لینے کی بجائے ایبسولیوٹلی ناٹ کہہ دے اور امریکہ کو ایسی حکومت قبول نہیں تھی جو احکام بجا لانے کی بجائے پلٹ کر سوال کرے کہ کیا ہم تمہارے غلام ہیں۔ یہ بیانیہ اس مہارت سے ترتیب دیا گیا ہے کہ روح کو تڑپا دے اور قلب کو گرما دے۔ لیکن حقائق اس بیانیے کے بالکل برعکس ہیں۔ آئیے ان حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف عمران خان نے جو مقدمہ کھڑا کیا تھا، وہ مقدمہ ان کی جماعت نے سب سے پہلے امریکہ ہی کے رکن کانگریس بریڈلے شرمن کے حضور پیش کیا تھا۔ یہ سوال آج تک جواب طلب ہے کہ بریڈلے شرمن پاکستان کے وائسرائے تھے یا تحریک انصاف کے بانی رہنما تھے؟ کس حیثیت میں ملکی سیاست کا داخلی معاملہ امریکی کانگریس کے رکن کے حضور پیش کیا گیا؟

ایک اور واقعہ بھی توجہ طلب ہے۔ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں اسرائیل نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ پرامن احتجاج پر کریک ڈائون اور تشدد کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب آج تک نہیں ملا کہ تحریک انصاف کی گرفتاریوں پر اسرائیل کو اتنی پریشانی کیوں ہوئی؟

مزید سوالات اس وقت کھڑے ہو گئے جب چند روز پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی میں غزہ کے لیے قرارداد پیش کی گئی تو قومی اسمبلی میں سے قافلہ انقلاب کے چند اراکین اسمبلی نے " نو " کی آواز لگا دی۔ حیرت سے سپیکر قومی اسمبلی کو پوچھنا پڑا کیا آپ فلسطین کی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے جا رہے ہیں؟

میری رائے میں ان اراکین اسمبلی نے شاید معاملے کی نوعیت سمجھے بغیر ہی اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہوگا جیسے وہ باقی قراردادوں کے خلاف دے رہے تھے تا ہم ا س حسن ظن کے باوجود سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ اتقاق تھا یا اہتمام کیو نکہ اس وقوعے کے بعد پارٹی نے کسی قسم کی وضاحت دینے کا تردد نہیں کیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد تحریک انصاف نے لابنگ بھی اسی امریکہ میں کی جس امریکہ کی غلامی سے نکلنے کے لیے یہ مبینہ جدوجہد کا دعوی کرتی ہے۔

الیکشن کے بعد ساری تگ و دو اسی امریکہ میں کی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنما سجاد برکی نے پاکستانی انتخابات کے حوالے سے لابنگ کی تو ان کی نگاہ انتخاب ری پبلکن پارٹی کی مائرا فلورس پر پڑی، وہ ان سے جا کر ملے اور اس ملاقات کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے فخریہ طور پر بتایا کہ وہ مائرا فلورس سے ملے ہیں اور انہیں بتا کر آ رہے ہیں کہ کس طرح انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چرایا گیا۔

برکی صاحب نے یہ بھی لکھا کہ مائرا فلورس نے موجودہ صورت حال میں Great interest یعنی بہت زیادہ دلچسپی دکھائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ امریکی مداخلت کے خلاف جدو جہد کر رہے ہیں تو پاکستان کے انتخابات تو پاکستان کا داخل معاملہ ہیں ان کی شکایت مائرہ فلورس نامی امریکی پارلیمنٹیرین سے کیوں لگائی گئی؟ نیز یہ کہ مائرہ فلورس موجودہ صورت حال میں Great interest یعنی بہت زیادہ دلچسپی دکھانا کیا امریکی غلامی سے نکلنے کا پہلا قدم تھا؟

امریکی سیاست دانوں کو ملکی معاملات میں دخیل کرنا اوراس پر فخریہ ٹویٹ کرنا کیا حقیقی آزادی کی جدو جہد قرار دی جائے گی؟ سوال سر دست یہ نہیں کہ انتخابات کیسے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بیانیہ امریکی غلامی سے آزادی ہے اور اگر بیانیہ یہ ہے کہ عدم اعتماد امریکی سازش تھی تو پھر اسی امریکہ کے حضور پیش ہو کر انتخابات کی شکایت کرنا کون سی دلاوری ہے؟

رہ گئے انتخابات تو اگر مقصد شفاف انتخاب ہی ہیں تو پھر 2018 کے انتخابات کی شفافیت کے مقطع کے بغیر غزل مکمل نہیں ہو سکتی۔ ادھورے مصرعے شاعری نہیں کہلا سکتے۔ نظم ہو یاغزل، پوری کہنی چاہیے۔

اگر لڑائی امریکہ سے آزادی کی ہے اور اگر اقتدار سے الگ امریکی سازش نے کیا اور اگر جھگڑا یہ ہے کہ پاکستان کو امریکی دبائو، اثر اور تسلط سے آزاد کیا جائے تو پھر لابنگ کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے جو فرمز ہائر کی جاتی ہیں ان کا تعلق امریکہ سے کیوں ہوتا ہے۔ امریکی غلامی کی نفی مقصود ہے یا امریکی غلامی کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا مقصود ہے؟

اراکین کانگریس گریگ سیزر اور سوزن وائلڈسے لابنگ کرکے امریکی صدر کو خط لکھوایا گیا اور خط میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے۔ پھر اس خط کا تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ٹویٹر پر ایک مہم کی صورت میں تذکرہ، یہ سب کچھ کیا امریکہ کی غلامی سے نجات کے لیے کیا جا رہا تھا؟

تحریک انصاف امریکہ کے رہنما فخریہ ٹویٹ کرتے رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اب سوچ رہے ہیں کہ پاکستا ن میں رقوم نہ بھیجی جائیں۔ (گویا پاکستان میں یہ لوگ اپنے ماں باپ اور فیملی کو رقوم نہ بھیجتے ہوں بلکہ سیدھا قومی خزانے میں عطیات کی صورت رقم بھیجتے ہوں اور قوم پر احسانات کرتے ہوں۔)

سٹیون پائن کی فرم ایل جی ایس، ایل ایل سی کو بھاری معاوضے پر ہائر کیا گیا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کیوں؟ کیا یہ امریکی فرم اتنا بھاری معاوضہ لے کر یہ بتاتی رہی کہ پاکستان کو امریکی غلامی سے آزاد کرنے کے رہنما اصول کیا ہیں؟

عدم اعتماد اگر امریکی سازش تھی تو عدم اعتماد کے دنوں میں امریکی فرم پرایا کنسلٹنٹس کو کیوں انگیج کیا گیا؟ کیا وہ بھاری معاوضہ لے کر یہ بتاتی رہی کہ آپ کوئی امریکہ کے غلام تھوڑی ہیں؟

ایک فرم ایسی بھی تھی جس کا سربراہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا اسلام آباد میں سابق سٹیشن چیف رابرٹ گرینیئر تھا۔ چھ ماہ کے لیے بھاری معاوضے پر اس کی فرم Feton Arllokکی خدمات کیا اس لیے لی گئیں کہ یہ بھائی جان اندر کے آدمی ہیں، امریکہ سے حقیقی آزادی کے لیے کوئی تیر بہدف نسخہ تجویز کریں گے اور ہم اس پر عمل کرتے ہوئے امریکی غلامی سے نکل جائیں گے۔

تالیاں۔