Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Diwar Khastagi

Diwar Khastagi

جناب ڈاکٹر اسلم انصاری لطیف جذبات، شدت احساس اور عمیق افکار کے شاعر ہیں۔ لاہور میں ہوتے تو آفتاب علم و ادب بن کر اپنی تب و تاب سے ایک جہان کو منورکرتے۔ تاہم ملتان کے باسی ہوتے ہوئے بھی کسی درخشندہ ستارے سے کم نہیں۔ ذرا ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا

میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

قمرالزماں کائرہ پیپلز پارٹی کے نہایت سنجیدہ لیڈر ہیں۔ طنز طعنے کی بجائے فکر انگیز بات کرتے ہیں دو تین روز قبل انہوں نے کہا کہ اس حکومت کو آسرا دینے کی ضرورت ہے نہ دھکا دینے کی یہ دیوار خستگی ہے۔ یہ سن کر مجھے انصاری صاحب کا شعر یاد آیا جو میں نے اوپر درج کیا ہے۔

دانا کہہ گئے ہیں کہ شومئی قسمت کبھی تنہا نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ کئی مشکلات لے کر آتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ایک نہیں کئی مشکلات و مصائب میں گھری ہوئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حکومت ہر مشکل کو حل کرتے ہوئے کبھی حق الیقین سے کام نہیں لیتی۔ ایک حل سوچ لیتی ہے مگر پھر اس پر گومگو کا شکار ہو جاتی ہے اور کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے کے بھنور میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں بالعموم حکومتوں کے لئے اپوزیشن مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہاں اپوزیشن اپنی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی پارٹیاں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔ ہر کسی کا اپنا اپنا راستہ ہے جو دوسروں سے جدا ہے۔ مولانا فضل الرحمن امید بہار کی تمنا اپنے دل میں سجائے ہوئے بڑی پارٹیوں کے دروازوں پر نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح دستک دیتے رہے ہیں مگر انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور اب تو وہ برملا ان پارٹیوں کے بارے میں اظہار مایوسی کر رہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمن کسی حد تک مرحوم نوابزادہ صاحب کی طرح پارٹیوں کو باہم متحد و متفق کر لیں گے کیونکہ ہم تو مولانا کے بارے میں خوش گمانی رکھتے ہیں کہ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی:

تجھ سے بچھڑ کے صحبت گل میں ملا قرار

اس میں بھی کچھ تو ہے تری بوباس کی طرح

حکومت کا ایک اہم مسئلہ تو اس کے اتحادی ہیں۔ جب حکومت بنانے کا مرحلہ آیا تو تحریک انصاف نے ان پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل اقتدار کر لیا جن پر ماضی میں جناب عمران خان شدید ترین تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان پارٹیوں میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) جی ڈی اے اور بلوچستان کی بی این پی ایم شامل تھیں۔ کولیشن حکومت میں سب سے زیادہ مشکل معاملات مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے درمیان ہیں۔ مسلم لیگ(ق) والوں کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت تشکیل دیتے ہوئے عمران خان کی وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ بڑے واضح قسم کے دو ٹوک وعدے کئے تھے جن میں سے اکثر اب تک ایفا نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف کے درمیان اعتماد کا رشتہ تارعنکبوت بن چکا ہے۔ عمرے پر جاتے ہوئے جہاندیدہ چودھری شجاعت حسین جناب عمران خان کو یہ نصیحت کر کے گئے کہ وہ اتحادیوں کی بات سنیں فسادیوں کی بات نہ سنیں۔ اتحادی حکومت کے لئے مولانا فضل الرحمان نے کچھ طوفانی لہروں کا اضافہ کر دیا ہے کہ پرویز الٰہی نے تین فوری استعفے اور تین ماہ میں نئے انتخابات کا وعدہ کر کے ان سے دھرنا ختم کروایا تھا۔ یوں تو سبھی حکمران کانوں کے کچے ہوتے ہیں مگر خان صاحب کچھ زیادہ یہ کچے ہیں بقول شاعر:

کچھ بے حسی بھی چاہیے بحر سکون دل

ہر لرزش صبا کے کہے پر نہ جائیے

حکومت کے لئے جو سیاست سے بھی بڑا معاملہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ آٹا مہنگا، چینی مہنگی، بجلی اور گیس کے نرخ آبادی کی اکثریت کے لئے ناقابل برداشت۔ سونے پر سہاگا یہ کہ عین اس وقت آئی ایم ایف والے بھی آ پہنچے ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر 45 کروڑ کی اگلی قسط لینی ہے تو کم از کم 200 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے ہوں گے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا اور نیپرا اور اوگرا جیسی خود مختار باڈیز کو آزادی دینا ہو گی۔ جناب عمران خان کا کہنا ہے کہ 50 ہزار نئی پرچون دکانوں سے سستی اشیا ملیں گے۔ دکانداروں کو 5 لاکھ تک کا قرض دیا جائے گا۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی کمر توڑ دی جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے قریبی لوگوں نے آٹا چینی بحران سے اربوں روپے کمائے ہیں۔ خان صاحب ان کا محاسبہ کریں۔

پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے کے بعد کاروبار پھلنے پھولنے کے بجائے سکڑ گیا ہے، سمٹ گیا ہے۔ سٹیٹ کرافٹ کوئی آسان کام نہیں۔ اس کام میں لچک بھی درکار ہوتی ہے۔ مہارت کی بھی ضرورت ہوتی اور سب سے بڑھ کر مشاورت اور استقامت درکارہوتی ہے۔ غالباً یہ قول عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ منسوب ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کامیاب حکمرانی کا راز کیا ہے۔ خلیفہ نے کہا صرف دو باتیں۔ بہترین حکمرانی پچاس فیصد فیاضی اور پچاس فیصد عفوو درگزر ہے۔

حکومت کے سارے معاشی بیانیے محض خواب ہی خواب ہیں ان میں سے شاید کوئی ایک بھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔ بجلی سستی ہونے کی بجائے بے حد مہنگی ہو گئی، گیس کے نرخ ناقابل یقین حد تک کئی گنا بڑھ چکے ہیں پٹرول کہ جس کی قیمت کو پچاس ساٹھ روپے لیٹر پر لانے کی نوید سنائی گئی تھی وہ 120روپے لیٹر تک جا پہنچا ہے۔ پچاس لاکھ گھر تعمیر ہوئے نہ ایک کروڑ نوکریاں دی گئیں۔ اب حکومت کے پاس لے دے کر صرف کرپشن کے خلاف مہم جوئی کا بہانہ بچا ہے مگر اس بہانے سے کب تک کام چلایا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کی دیوارخستگی کو صرف ایک شخص اب بھی دیوار پختگی میں بدل سکتا ہے اور وہ شخص خود عمران خان ہے۔ اس کام کا نسخہ آسان ہے زیادہ مشکل نہیں۔ بس انہیں اقتدار میں رہتے ہوئے اپوزیشن والا بیانیہ چھوڑنا اور اقتدار والا لچکدار بیانیہ اختیار کرنا ہو گا۔