مجھے اعتراف ہے کہ میں محرم رازِدرون مے خانہ نہیں اور نہ ہی میری کسی ایسے میکدے تک رسائی ہے۔ جہاں سے فیض حاصل ہوتا ہو۔ البتہ یکدم حکمرانوں کی غضبناکی اور کچھ وزیروں کی دشنام طرازی اور گرم گفتاری دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی اقتدار کی کشتی ڈانواں ڈول ہے۔ بقول اظہار الحق :
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسمان جیسے
خدا نہ کرے کہ حکومت کے محل پر کوئی آفت آئے مگر حکومتی کارندے جس طرح سے کبھی ایک اتحادی جماعت اور کبھی دوسری جماعت کے در پہ دوڑے چلے جاتے ہیں اس سے ان افواہوں کو خاصی تقویت ملتی ہے جو ان دنوں شہر اقتدار میں چار سو پھیلی ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم کے اہم ترین لیڈر خالد مقبول صدیقی کے استعفیٰ کے بعد حکومتی وفد انہیں منانے گیا مگر انہوں نے اسے فیصلے سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگاڑا سے گزشتہ روز کراچی میں ان کے در دولت پر جا کر ملاقات کی۔ ایسی کچھ خبریں منظر عام پر آ رہی تھیں کہ جی ڈی اے حکومت سے اپنے رستے جدا کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق بشیر چیمہ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ آج اسلام آباد حکومت کی اتحادی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے قائدین سے حکومتی وفد مل رہا ہے جبکہ لاہور میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی مسلم لیگ(ق) کے لیڈروں سے ملاقات ہونے والی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے "ووٹ کو عزت دو" والے بیانیے سے بے وفائی کیوں کی۔ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ گزرتے شب و روز کے ساتھ ساتھ ایک سوال کی کئی جہتیں اور کئی پرتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ اسی سوال کا شاعرانہ جواب تو شاعر بشیر بدر نے بہت پہلے دے دیا تھا کہ:
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
یہ شاعرانہ جواب شاید میاں صاحب کے بعض ناراض و نالاں سیاسی کمٹمنٹ رکھنے والے پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کی تشفی نہ کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے پارٹی کے روایتی اسلوب سیاست سے ہٹ کر ایک نیا انقلابی جمہوری بیانیہ اختیار کیا تھا۔ گویا میاں صاحب روایتی سیاست دان سے ایک نظریاتی سیاست دان بن گئے تھے۔ میاں صاحب نے اس نظریاتی سیاست کے لئے مصائب و مشکلات برداشت کیں اور ایک طویل قید کاٹی۔ میاں صاحب نے پس دیوار زنداں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا نہ کوئی کمپرومائز کیا۔
تاہم جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ سامنے آیا تو میاں صاحب نے اپنے انقلابی بیانیے سے پسپائی اختیار کر لی۔ انہوں نے اس بل کے حق میں آنکھیں بند کر کے ووٹ دینے کی خواجہ آصف کو ہدایت کی۔ بہت سے نظریاتی نقطہ نظر رکھنے والے پارٹی قائدین و کارکنان بہت برہم اور دل برداشت ہوئے۔
میاں نواز شریف کے پارٹی لیڈروں اور ان کے چاہنے والوں کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ میاں نواز شریف کوئی سقراط کی طرح کے سوفیصد نظریاتی نہیں کہ جو اپنی حق گوئی کی لاج رکھنے کے لئے زہر کے پیالے کو اپنے لبوں سے لگا لیں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں صاحب کے بیانیے کو قدر کی نگاہ سے ضرور دیکھا جائے گا مگر میاں نواز شریف ایک طویل سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے دوران بعض معرکوں میں وقتی طور پر پسپائی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کی اصل فکر مندی یہی ہے کہ میاں نواز شریف کی اس پسپائی کے پس پردہ مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی انڈرسٹینڈنگ تو قائم نہیں ہو گئی۔ یہ انڈرسٹینڈنگ کوئی بعداز قیاس بھی نہیں۔
پی ٹی آئی جب برسر اقتدار آئی تو اس نے یہ تاثر دے رکھا تھا کہ وہ معیشت کو مضبوط کردے گی اور ہر طرف خوشحالی خوشحالی ہو گی۔ مگر اس حکومت نے معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔ جب پی ٹی آئی نے عنان اقتدار سنبھالی تب شرح نمو5.5 فیصد تک تھی جو اب گر کر صرف 3.4 رہ گئی ہے۔ مہنگائی اس وقت 4 فیصد تھی جواب 15 فیصد ہو گئی ہے۔ اسی لئے عوام کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں۔
ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں پاکستان کا گروتھ ریٹ 2.4 فیصد تک گر جائے گا جبکہ اگلے تین برسوں میں بھی یہ زیادہ سے زیادہ 3.5تک جا سکے گا۔ پاکستانی معیشت دانوں کے مطابق حکومت کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ وہ آئے گی تو بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی۔ مگر ہوا اس کے برعکس ہے۔
بالائی حلقوں کو ایک تاثر یہ بھی دیا گیا تھا کہ جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نیب کی زدمیں آئیں گی تو ان کا ووٹ بنک ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ مگر عملاً ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ اس طرح عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ اپنی شخصیت کے کرشمے سے ملک ک اندر بڑی انقلابی تعلیمی و سماجی تبدیلیاں لائیں گے اور بیرون ملک خارجہ پالیسی میں پاکستان کے وقار کو بلند کر دیں گے مگر اس توقع کا آبگینہ بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔
آرمی ایکٹ میں اپوزیشن کی غیر مشروط تائید کے دوچار دنوں میں خان صاحب نے اپوزیشن پر تیر اندازی میں قدرے کمی کر دی تھی مگر ان مفروضوں کی ہوائیں چلنے کے بعد خاں صاحب نے تیر اندازی والا مورچہ ایک بار پھر سنبھال لیا ہے۔