جناب عمران خان نے گزشتہ کئی برس سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رکھا تھا اور ان پر کرپشن کے الزامات لگا کر مسلسل چاند ماری کر رہے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کا شوق سنگ باری ماند پڑنے کی بجائے افزوں تر ہو گیا۔ داخلی میدان ہو یا خارجہ محاذ خان صاحب کا مرغوب موضوع یہی ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے مالی کرپشن کی حد کر دی تھی۔ عمران خاں کی کرشماتی و طلسماتی شخصیت کے ساتھ لوگوں نے بہت زیادہ امیدیں باندھ لیں تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں جب کبھی قوم کسی گرداب میں گرفتار ہوئی یا یاس و ناامیدی کا شکار ہوئی تو جماعت اسلامی کی قیادت بالخصوص مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قوم کو فکری و سیاسی رہنمائی فراہم کی۔ قوم نے ان کی رہنمائی کی قدر افزائی بھی کی اور ان کی دیانت و امانت کی قسم بھی کھائی مگر یہ الگ بات کہ جب بھی ووٹ دینے کا وقت آیا تو اکثریت نے کبھی ذات برادری کبھی تعلق داری اور کبھی ظاہری چکا چوند اور گلیمر کو ووٹ دیا۔ پاکستان اسلام اور جمہوریت کے ذریعے قائم ہوا۔ بانی پاکستان نے نوزائیدہ مملکت کو جدید اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا اور بار بار دیا تھا مگر قیام پاکستان کے بعد مٹھی بھر لادین عناصر پاکستان کی اسلامی اساس کے درپے ہو گئے ہیں اور اسے ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کے لئے دانشوری کے ہتھیار کے ساتھ سرگرم عمل دکھائی دینے لگے۔ مولانا مودودی نے قرار داد مقاصد کے لئے زبردست مہم چلائی اور اس کے لئے زبردست دلائل فراہم کئے۔ جب قرار داد مقاصد منظور ہو گئی تب سیکولر طبقہ ایک نیا جال لے کر صحافتی میدان میں سامنے آیا کہ حضور! کون سا اسلام۔ بریلوی، دیو بندی یا اثنا عشری۔ تب جماعت اسلامی کی کاوشوں سے 1951ء میں مختلف مکاتب فکر کے 31جید علماء کرام نے علامہ سلیمان ندوی کی زیر صدارت کراچی میں 22 متفقہ نکات پیش کر دیے کہ یہ متفقہ اسلام نافذ کر دیجیے۔ فاطمہ جناح کی حمایت، ایوب خاں کے دور آمریت سے نجات، ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے جواب میں شوکت اسلام کا محاذ پھر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی آمریت کو سرنگوں کرنے اور پھر 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کا قیام جس کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کو شاندار کامیابی ملی۔ ان سب مواقع پر جماعت اسلامی نے ملک و قوم کو ہر گرداب سے نکالنے کے لئے ہمیشہ اتحاد و یکجہتی کا راستہ اختیار کیا۔
جناب سراج الحق نے قوم کو معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار سے نکالنے کا جو دعویٰ کیا ہے اس دعویٰ کے لئے ابھی تک جماعت اسلامی نے کوئی دلیل اور واضح پروگرام قوم کے سامنے پیش نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کی دیانت و امانت ہر شک شبہ سے بلند و بالا ہے۔ تاہم جماعت اسلامی اکثر اپنے سیاسی قد کاٹھ کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ اندازے قائم کر لیتی ہے۔ اس بار بھی یہ سننے میں آ رہا ہے کہ اگلے انتخابی معرکے کے لئے جماعت اسلامی کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی اور یک و تنہا میدان میں اترے گی۔ اگر جماعت اسلامی نے قومی ذہن سازی اور ان تک بھر پور رسائی و پذیرائی اختیار کر لی ہے تو پھر جماعت سولو فلائٹ کا دعویٰ کر سکتی ہے مگر زمینی حقائق سے جماعت اسلامی کے اس دعویٰ کے کہیں سے تصدیق نہیں ہو رہی۔ کہیں سے کوئی ایسے اشاریے نہیں مل رہے کہ جن سے یہ ثابت ہو کہ جماعت اسلامی کو عوامی تائید مل چکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت بہت بڑا سیاسی خلا ہے۔ قوم مایوس اور کنفیوژ ہے مگر روشنی دینے والے کو اپنے گھر کے لئے بھی دیا نہیں بہت بڑا چراغ چاہیے۔
جماعت اسلامی کو قوم کی رہنمائی کے لئے بیک وقت تین کام کرنے چاہیں۔ پہلا کام تو یہ کہ مولانا مودودی کے طریقے کے مطابق دور جدید کی سہولتوں کو کام میں لا کر قوم کی ہر قدم پر فکری دینی سیاسی اور معاشی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ جماعت کا نہایت ہی وسیع حلقہ اثر ہے ان کے ہمدرد زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں اس وقت جماعت کے فکری رہنما پروفیسر خورشید احمد اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود جماعت کے ماہنامے ترجمان القرآن میں اشارات کے عنوان سے عالمی و پاکستانی سیاست کے حوالے سے رہنمائی فرماتے ہیں مگر ایک رہنمائی کی رسائی بہت محدود ہے۔ جماعت اسلامی کو تیونس میں کامیابی حاصل کرنے والی النحضہ پارٹی کی سیاسی و انتخابی کامیابی کا بنظر عمیق جائزہ لینا چاہیے۔ ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ تیونس کی اس جماعت نے فکری بنیادمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر اور بعض جماعتی زعمائے کرام سے حاصل کی ہے۔ ممتاز تیونسی مفکر و مصنف راشدالفنوشی نے اس جماعت کی بنیاد 1981ء کے بدترین دور آمریت میں رکھی تھی۔ وہ 38برس سے اس کے سربراہ ہیں اور انہوں نے اس اسلامی جماعت کو بہترین سیاسی و انتخابی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ رابرٹ ایف ورتھ نے النحضہ کو عالم اسلام کی سب سے زیادہ اعتدال پسند اور جمہوریت نواز اسلامی جماعت قرار دیا ہے۔ تبھی تو اسے تیونس جیسے فرانسیسی کلچر رکھنے والے ملک میں بے پناہ عوامی پذیرائی ملی ہے۔ جماعت اسلامی دوسرا کام یہ کرے کہ بلدیاتی انتخابات کا ہدف سامنے رکھتے ہوئے شہروں اور دیہاتوں میں بھر پور رابطہ عوام مہم شروع کرے۔ اس مہم میں لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی آبادیوں کو صاف ستھرا رکھنے اور روز مرہ مسائل حل کرنے میں ان کی عملی مدد کرے۔ آخری گزارش ہے کہ جماعت اسلامی حقیقت پسندانہ انتخابی سوچ اور اپروچ اختیار کرے۔ اسمبلیوں میں قابل محسوس موجودگی کے بغیر سیاست نہیں ہو سکتی۔ جماعت اسلامی تنہا پرواز کے لئے جدوجہد جاری رکھے مگر اگلا انتخاب مڈٹرم ہو یا اپنے وقت پر ہو اس میں کم از کم ہر ایوان میں اپنے لئے کم از کم پندرہ سیٹوں کا ہدف مقرر کرے اور اس کے لئے اسلام پسند وہی سیاسی جماعتوں کے ساتھ شرح صدر سے اتحاد کرے۔ جماعت سے باہر بھی اہل پاکستان کی بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے ملکی مسائل تب ہی حل ہوں گے جب جماعت اسلامی جیسی دیانت و امانت والی پارٹی کی آواز ایوانوں میں گونجے گی۔ اگر جماعت حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے گی تو وہ یقینا موجودہ سیاسی خلا پر کر لے گی۔