اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ازبس ضروری تھا۔ عوام بھی پورا سچ جاننا چاہتے تھے اور ہیں بھی مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حقائق جانتے ہوئے بھی منصوبہ سازوں اور کرداروں کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرکے ہر دو کو نہ صرف سنبھلنے کا موقع دیا گیا بلکہ اس عرصہ (گزشتہ ایک برس) کے دوران ان منصوبہ سازوں اور کرداروں کے جو ہمدرد مختلف اداروں میں موجود ہیں انہیں بھی ذاتی پسندوناپسند کے مظاہرے کا آزادانہ موقع ملا۔
اب یہ کہنا کہ شفاف عدالتی کارروائی تک ملک سازشی عناصر کے ہاتھوں یرغمال رہے گا، بہت عجیب بات لگتی ہے۔ سال بھر میں شفاف عدالتی کارروائی میں رکاوٹ کون بنا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اداروں کے اندر ہوتی پسندوناپسند کی لڑائی نے جھوٹ سچ سب گڈمڈ کردیا ہے۔
منصوبہ ساز اور کرداروں کو ہیرو بناکر پیش کیا جارہا ہے؟ بہرطور یہ ایک رائے ہے اور اس سے آنکھیں چرانا غلط ہوگا۔
جہاں تک گزشتہ روز فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور ان کے خیالات کا تعلق ہے تو ان پر مکالمے کی ضرورت ہے فقط مکالمہ ہی نہیں بلکہ ان سوالات اور خیالات پر بھی جو سوال اٹھ رہے ہیں ان کا بھی جواب دیا جانا ضروری ہے۔
ان میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا 9 مئی کے واقعات محض عمران خان کی گرفتاری پر ان کے حامیوں کے ردعمل کا نتیجہ تھے یا پھر یہ واقعات ایک منصوبہ کے تحت کرائی گئی گرفتاری کا نتیجہ؟
منصوبہ پی ٹی آئی کا تھا یا جیسا کہ زبان زدعام ہے کہ یہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ان سابقین کا تھا جن کا خیال تھا کہ اداروں میں موجود ہمارے شاگرد جونیئرز اور عزیز تبدیلی کے عمل میں اپنا کردار ادا کریں گے؟
یہاں ایک اہم اور چبھتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ کیا 9 مئی محض سیاسی نظام کے پسندیدہ و ناپسندیدہ کرداروں کی حمایت یا مخالفت کا "پانی پت" تھا یا بنیادی طور پر یہ ملکی اداروں کے اندر بعض منصبوں پر ہونے والی تقرریوں کو قبول نہ کرنے کے جذبات کا عملی مظاہرہ اور یہ کہ اس مظاہرے کے لئے کانوں کی کچی زود رنج اور بدلے کی بھائونا میں گردن تک دھنی پی ٹی آئی کی قیادت استعمال ہوگئی؟
یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ صرف ان سطور میں ہی 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز تواتر کے ساتھ پیش نہیں کی گئی بلک مختلف الخیال حلقوں سے بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ سامنے آتا رہا۔ ہماری دانست میں معاملات و رجحانات کو اسی وقت سمجھ لیا جانا چاہیے تھا جب ملکی نظام انصاف نے بعض معاملات پر حکم امتناعی جاری کئے کچھ اقدامات کو رد کردیا اور چند پر ایسے سوالات اٹھادیئے جو قانونی کم اور سیاسی زیادہ تھے۔
اندریں حالات یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آخری غلطی کے ذمہ داروں منصوبہ سازوں اور کرداروں کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ 9 مئی کے "پانی پت" کے لئے منصوبہ سازی کرنے والے اور سہولت کاری کرنے والے ہر دو طرح کے کرداروں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔
اس کے بغیر پروپیگنڈے کی دنیا میں ففتھ جنریشن وار کے تربیت یافتگان کے لئے بہت آسان ہوگا یہ ثابت کرنا کہ انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں۔
غور طلب امر یہی ہے کہ یہ انتقامی کارروائیوں والے پروپیگنڈے کو دوام کیوں ملا؟ اس کی دو وجوہات ہیں اولاً منصوبہ سازوں اور کرداروں کے لئے اداروں کے اندر سے ہمدردی اور سہولت کاری ثانیاً ایف آئی آرز میں نامزد افراد کے ساتھ نامعلوم افراد کے لفظ کی بدولت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پولیس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے ایک طرف تو 9 مئی کو اپنے لئے منفعت بخش بنایا دوسری جانب تعداد پوری کرنے کے چکر میں سینکڑوں ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کرلیا جو تحریک انصاف اور عمران خان سے جذباتی لگائو تو رکھتے تھے مگر پرتشدد مظاہروں میں شریک نہیں تھے۔
اسی طرح یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ 9 مئی کے مقدمات میں نامزد بعض افراد چند ماہ یا سال بھر تک پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی نگاہوں سے اوجھل رہے یا اوجھل سمجھے گئے دونوں صورتیں اندرونی سہولت کاری کے بغیر ممکن ہی نہیں تھیں یا پھر کھلے دل سے اس امر کا اعتراف کرلیا جانا چاہیے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں مطلوب افراد کو تلاش و گرفتار کرنے میں ناکام رہیں۔
یہ بات آسانی سے سمجھ آنے والی ہے کہ اس طرح کا اعتراف خود سکیورٹی نظام کی خامیوں کو لوگوں کے سامنے لے آئے گا۔ باردیگر یہ عرض کرنا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ اداروں کے اندر پسندوناپسند اور سہولت کاری کے جذبات رکھنے والے افراد (وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں) کا احتساب کئے بغیر نہ تو 9 مئی کے حقیقی منصوبہ ساز اور کردار بے نقاب ہوں گے نہ نظام ہائے مملکت اور سیاسی عمل سے کھلواڑ کرنے والے منطقی انجام تک پہنچائے جاسکیں گے۔
قانون کی بالادستی، انصاف ہوتا ہوا دیکھائی دے اور معاملات سیدھے سبھائو آگے بڑھیں یہ تینوں چیزیں اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر سطح پر سہولت کاری کی حوصلہ شکنی کی جائے جوکہ بظاہر ممکن نہیں کیونکہ ذاتی جماعت بنانے بنوانے کا شوق راتوں رات امید سے بھر نہیں آیا تھا بلکہ اس کے لئے 1988ء سے ہی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔
سال بہ سال کے سفر کے بعد مارچ 2000ء میں حتمی فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ تیسری قوت کے طور پر ایسی سیاسی جماعت اور قیادت لائی جائے جو اشاروں پر چلے۔ اس انتظام کے لئے سیاسی عمل اور نظام کو برباد کرانے میں جنہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی وہ بھی صورتحال کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے 9 مئی کے منصوبہ ساز اور کردار یا پھر 9 مئی کے بعد سہولت کاری میں مصروف عناصر۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دستور و قانون کی حاکمیت اور سیاسی استحکام سے زیادہ ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔
بہت ضروری ہے کہ اولاً اولاً اس سوچ کے خاتمے کے لئے کچھ کیا جائے کیونکہ جب تک یہ سوچ موجود ہے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے منصوبہ سازوں اور کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور کیفر کردار تک پہنچانا جاگتی آنکھ کے خوابوں جیسا ہی ہوگا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بطور خاص سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ادارے پسندوناپسند اور سہولت کاری کے کھیلوں سے خود کو الگ کرکے دستور کے مطابق نظام اور سیاسی عمل کو نہیں چلنے دیتے اس وقت تک یہ ملک ایک تماشا گاہ تو رہے گا ایک ایسی قومی جمہوری فلاحی ریاست نہیں بن سکے گا جو 25 کروڑ افراد کو مثالی ماحول، سہولتیں، انصاف اور مساوات پر مبنی نظام فراہم کرسکے۔
ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ طاقت و اختیارات کے مراکز میں بیٹھے لوگ ان معروضات پر غور کرنے کے لئے کچھ وقت نکال لیں تاکہ مستقبل کے بحرانوں، انہونیوں اور تباہی سے بچا جاسکے۔