پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو درست کہتے ہیں کہ مہنگائی اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے، سیاستدان اگر ایک دوسرے سے مذاکرات نہیں کریں گے تو مسائل کیسے حل ہوں گے اپنی جماعت کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ "بھٹو ریفرنس اور تاریخ" سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عدم مفاہمت کا رویہ درست نہیں، نفرت کی سیاست سے پیدا شدہ مسائل کے ذمہ دار وہی ہیں جنہوں نے اس کی ترویج کی۔
انہوں نے عدلیہ میں اصلاحات، وفاقی دستوری عدالت کے قیام اور ججز تقرری پر اصلاحات لانے کی بھی بات کی۔
وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی تجویز پہلی بار بھی پیپلز پارٹی نے ہی 2009ء میں پیش کی تھی اس معاملے پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی لیکن پھر مسلم لیگ (ن) سمیت بعض جماعتوں نے اپنا سیاسی وزن عدلیہ کے افتخار چودھری گروپ کے پلڑے میں ڈال دیا۔
فوجی آمر پرویز مشرف کے پہلے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو عدلیہ بحالی کی تحریک کا ہیرو بنا کر پیش کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی راہ کھوٹی کی جاسکے یہی نہیں بلکہ عوامی طور پر اس تاثر کو اجاگر کیا جائے کہ پیپلز پارٹی آزاد عدلیہ پر حملہ آور ہے
حالانکہ اگر وفاقی دستوری عدالت کے قیام کی تجویز کی افتخار چودھری گروپ کی خوشنودی کیلئے مخالفت نہ کی گئی ہوتی تو سیاسی ودستوری تنازعات کے لئے الگ سے بننے والی عدالت کی وجہ سے سپریم کورٹ معمول کے فرائض سرانجام دیتا جس سے سائلان کو بلاتاخیر انصاف فراہم کرنے کے عمل میں واقعتاً پیش رفت ہوتی۔
عدالتی اصلاحات کا بنیادی کام ظاہر ہے پارلیمان کی ذمہ داری ہے ججز تقرری والے معاملے میں بھی پارلیمان میں پی پی پی کے 2008ء سے 2013ء کے درمیانی عرصہ اقتدار میں جس طرح رکاوٹ ڈالی گئی وہ کسی سے مخفی نہیں بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی سول سپریسی کی علمبردار مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارلیمان کی بجائے افتخار چودھری گروپ کے ساتھ جاکھڑی ہوئی جس سے ججز تقرری کے حوالے سے پارلیمان کی حیثیت ربڑ سٹمپ کی سی ہوگئی۔
آج مسلم لیگ (ن) اپنے اتحادیوں (ان میں بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے) کے ہمراہ وفاق میں برسراقتدار ہے، بلاول بھٹو گاہے گاہے اپنی جماعت کے ایجنڈے کے مختلف نکات عوامی اجتماعات میں زیر بحث لاتے رہتے ہیں، گزشتہ روز بھی لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عدلیہ میں اصلاحات، ججز تقرری اور دستوری عدالت کے حوالے سے اہم باتیں کیں
ہماری رائے میں ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں پہلے اپنے اتحادیوں سے بات کرنی چاہئے ثانیاً یہ امر سبھی کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں اسکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے "اتحادیوں و معاونین" سے بات چیت کے ذریعے ہی راستے نکالے جاتے ہیں۔
فی الوقت صورت یہ ہے کہ نظام ہائے حکومت پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا شکنجہ مضبوط ہے، وفاقی دستوری عدالت کے حوالے سے بھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساجھے دار اداروں اور سیاسی ہمنوائوں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں آیا نا ہی یہ بااثر طبقات اور ادارے ججز تقرری کے معاملے میں پارلیمان کے حتمی کردار کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں گے۔
ججز تقرری کے حوالے سے جن بااثر سیاسی لاء چیمبرز کوپارلیمان کے مقابلے میں بالادستی حاصل ہے وہ بھی ماضی کی طرح پارلیمان کی بجائے فیصلہ سازوں اور ایجنسیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ اگر اس معاملے میں پارلیمان کو مکمل اختیار مل جاتا ہے تو وکلاء سیاست کے ان "بڑوں" کی حیثیت نہیں رہتی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مہنگائی اور دہشت گردی اس وقت سب سے بڑے مسئلے ہیں تو اس پر دوآراء نہیں بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں مسئلوں کو بھی آج کی اتحادی حکومت پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کی طرح حالات کے رحم وکرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔
نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خود کچھ کرنے کی بجائے اللہ توکل پر انحصار کرلیا جائے، اصولی طور پر تو اتحادی حکومت کو برسراقتدار آنے کے فوراً بعد مہنگائی کے خاتمے کو اولین ترجیح کے طور پر دیکھنا چاہئے تھا۔
اسی طرح دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سرکوبی کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی سوچ کے ساتھ انقلابی فیصلے کی ضرورت تھی افسوس کے ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقدامات تو دور کی بات سوچا بھی نہیں جارہا۔
البتہ مہنگائی میں اضافے میں معاون بننے والے کام بہرطور جاری و ساری ہیں جیسا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی اور سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلاول بھٹو کی ساری باتیں درست ہیں لیکن وہ پہلے ان پر اپنے اتحادیوں سے صلاح مشورہ ضرور کر لیں تاکہ عوام کی امیدیں ماضی کی طرح نہ ٹوٹنے پائیں اور حقیقی معنوں میں تمام شعبوں میں انقلابی اصلاحات کا آغاز ہو جو ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکیں۔