اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ ملکی سیاست میں مفاہمت و تعاون اور عوامی مسائل کے حل کیلئے کچھ کر گزرنے کے جذبہ سے زیادہ عدم برداشت، میں نہ مانوں اور الزام تراشی کا دور دورہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیاسی عدم استحکام اہل پاکستان کو ورثے میں ملا ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد خود کو خالق پاکستان سمجھنے والی مسلم لیگ نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو طرز عمل اپنایا اس کا پون صدی بعد بھی دور دورہ ہے۔
یہ سوچنا کہ ملک میں چار مارشل لائوں سے سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھنے کی زحمت کیوں نہیں کی، وقت کا ضیاع اس لئے ہے کہ ایک دو کے سوا تقریباً تمام سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے ہمہ وقت سمجھوتے کے لئے تیار رہتی ہیں۔ سمجھوتہ کون کس سے کرنا چاہتا ہے یہ راز ہائے درون سینہ ہرگز نہیں۔
ستم یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کی قیادت حقیقت پسندی کی بجائے اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ فقط وہ ہی نظام ہائے حکومت اور عوام کی قیادت کے لئے اہل و چنیدہ ہے ان کے علاوہ سبھی عوام اور جمہوریت کے دشمن ہیں۔ اس وقت بھی جب پاکستان اپنی تاریخ کے خوفناک معاشی بحران اور مسائل سے دوچار ہے ملک میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام واضع اور صاف دیکھائی دے رہا ہے صرف یہی نہیں بلکہ شخصی انانیت کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
ملکی سیاست کے ایک بڑے اور اہم فریق سابق وزیراعظم عمران خان اپنی ظاہری اسٹیبلشمنٹ دشمن سیاست کے باوجود بات چیت صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہی کرنا چاہتے ہیں گو کہ ان کی جماعت کے بعض رہنمائوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات اور بعدازاں اخباری نمائندوں سے مشترکہ بات چیت کے دوران یہ تاثر دیا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں اختلافات بتدریج ختم ہونے جارہے ہیں اور دونوں جماعتیں مستقبل میں مل کر آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے جدوجہد کریں گی۔
لیکن اخبار نویسوں میں سے کسی نے ان سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ اگر جے یو آئی جیسی ناپسندیدہ ترین حریف جماعت سے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی ملاقات اور مل کر جدوجہد پر بات چیت ہوسکتی ہے تو پی ٹی آئی کے بانی سربراہ اس موقف پر کیوں اڑے ہوئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے بجائے ملٹری اشرافیہ سے مذاکرات ہوں گے کیونکہ فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے؟
بظاہر یہ ایک ہی وقت میں ڈبل چالیں چلنے والی صورتحال ہی ہے جس پر بعض حلقے یہ رائے دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت جے یو آئی سے سیاسی صلح اور تعاون پر آمادہ اس لئے ہوئی ہے کہ اس کی سٹریٹ پاور احتجاجی سیاست میں معاون بن سکتی ہے۔ جے یو آئی سے قربتیں بڑھاکر ہی پی ٹی آئی اپنے اصل حریف جوکہ اس کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ ہے پر دبائو بڑھانا چاہتی ہے تاکہ وہ بھی اس سے بات چیت کے لئے مجبور ہو۔
بادی النظر میں تو یہ حکمت عملی آئین و جمہوریت کی بالادستی کی بجائے اقتدار کے ایوانوں میں اپریل 2022ء سے قبل والی پوزیشن کے ساتھ واپسی کی خواہش ہی لگتی ہے۔
ایسا ہے تو پھر یہ سوچا جانا چاہیے کہ عوام پر اعتماد کی بجائے درمیانی راستہ تلاش کرنے میں اتنی دیر کیوں لگادی گئی؟
امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے شوروغوغے اور اتحادوں کا ڈول ڈالنے کے عمل کے درمیان کسی نے اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہو یا معاملہ طے کرلیا ہو یہی وجہ ہے کہ اگر آج اگلے چند مہینوں یا کچھ عرصے میں پی ٹی آئی اپنے ہمدردوں کی توقعات کے برعکس کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پر کسی کو حیرانی نہیں ہوگی البتہ یہ بات ایک بار پھر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ تبدیلی، انقلاب، آئین و جمہوریت کی بالادستی کی باتیں یا ہم کوئی غلام ہیں کا نعرہ یہ سب کاروبار سیاست کا حصہ تھے جونہی منافع ملنے کی امید پید ہوئی پینترا بدل لیا۔
مروجہ سیاست ایسی ہی سمجھوتہ بازیوں، کہہ مکرنیوں سے عبارت ہے۔ نظریاتی سیاست اب تاریخ اور زبانی کلامی باتوں تک ہے عمل کی دنیا یکسر مختلف ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پینترے بدل کر سمجھوتے کرنے یا سمجھوتوں کے لئے ہاتھ پائوں مارنے والے ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے جو یہ کہتے تھے کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں عوامی جمہوریت کے لئے راستہ حکمت عملی سے نکالا جاتا ہے۔
عوامی جمہوریت پر مبنی نظام پلیٹ میں کوئی بھی سجاکر نہیں پیش کرتا۔ دستیاب نظام کے اندر رہ کر اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ کوششوں کے ہی مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ شخصی انانیت، تکبر اور عدم برداشت سے جنم لینے والے مسائل اس قدر گمبھیر ہوچکے ہیں کہ ان کی وجہ سے بدترین معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہماری دانست میں جب تک سیاسی عمل میں شریک لوگ مجموعی یا چند شخصیات خصوصی طور پر اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتیں کہ نفرتوں کی سیاست اور مخالفین سے بات چیت سے انکار کی وجہ سے بند گلی سے نکلنا بہت مشکل ہے، اس وقت تک کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔
ماضی میں ایک سے زائد بار ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے روادار سیاست دانوں کو بالآخر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا یہی نہیں انہوں نے بعض مواقع پر مل کر جدوجہد بھی کی۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بننے والے پاکستان قومی اتحاد کی بعض جماعتیں 1980ء کی دہائی میں مارشل لاء کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کا حصہ بنیں۔ پورا ایک عشرہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا دیکھائی دینے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اے آر ڈی میں اکٹھے ہوئے۔ خود تحریک انصاف ماضی میں کئی سیاسی اتحادوں کا حصہ رہی۔
یہی وہ نکات ہیں جن کی روشنی میں پی ٹی آئی کی قیادت سے یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بجائے سیاسی حریفوں سے بات چیت کا راستہ نکالا جائے۔
بالفرض اسے اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنا ہے تو پھر یہ کیسے کہہ پائے گی اسٹیبلشمنٹ خرابیوں کی جڑ ہے؟ یا یہ کہ ہماری حکومت اسٹیبلشمنٹ نے گرائی تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحرانوں کے سنگین تر ہونے کا جتنی جلدی احساس کرکے حالات کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا جائے بہتر ہوگا۔ اس مرحلہ پر حکمران اتحاد کو بھی چاہیے کہ وہ بھی سیاسی بلوغت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے دو قدم آگے بڑھے۔
امید ہے کہ سیاسی عمل کے تمام فریق ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور اس امر کو بھی مدنظر رکھیں گے کہ ان کی باہمی لڑائی سے جہاں ملک کے اندر موجود غیرجمہوری قوتیں فائدہ اٹھارہی ہیں وہیں بین الاقوامی مالیاتی نظام کے کرتا دھرتا ادارے بھی پاکستان کو بلیک میل کرنے میں مصروف ہیں۔
ثانیاً یہ کہ پی ٹی آئی کی قیادت خیبر پختونخوا میں قائم اپنی حکومت کو بھی یہ ہدایت کرے کہ وفاق سے لڑائی لڑنے کی بجائے حکمت عملی سے صوبے کے لئے ضروری وسائل حاصل کئے جائیں۔ وفاقی حکومت بھی ایک کمیٹی قائم کرے جو اپریل 2022ء کے بعد سے اب تک بننے والے مقدمات کا جائزہ لے۔ غیرضروری اور انتقامی بنیادوں پر قائم مقدمات واپس لئے جائیں تاکہ ان مسائل و مشکلات سے نجات مل سکے جو گلے کا پھندہ بنے ہوئے ہیں۔