وفاقی کابینہ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نئی خصوصی انکوائری کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ انکوائری کمیٹی نے ٹی او آرز کے مطابق کام نہیں کیا۔ قبل ازیں کمیٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں اس حوالے سے سماعت کے دوران بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
اب وفاقی کابینہ نے کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نئی خصوصی کمٹی بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ نہ صرف درست بلکہ اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے کہ یہ بھی تو پتہ چلے کہ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور میں فیض آباد دھرنے کا حقیقی پس منظر کیا تھا اور دھرنے والوں کی سہولت کاری کس کس نے کی۔
یہ بھی کہ جن بعض سرکاری حکام پر دھرنے والوں کی سہولت کاری کا اس وقت الزام آیا انہوں نے یہ اپنی انفرادی حیثیت میں کیا یا محکمانہ پالیسی یہی تھی کہ منتحب حکومت کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں۔
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ 2014ء، 2017ء اور پھر 2018ء کے اوائل میں اس وقت کی منتخب حکومتوں کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کے پیچھے خود بعض ریاستی ادارے تھے جن کا مقصد اپنی سرپرستی میں لی گئی ایک سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانا تھا۔
فیض آباد دھرنا تحقیقیاتی کمیٹی کی رپورٹ پر دیگر اعتراضات کے علاوہ اہم ترین اعتراض جو کہ سپریم کورٹ میں بھی سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اس دھرنے کے ایک اہم ریاستی کردار جنرل (ر) فیض حمید جو بعدازاں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہے، کا کمیٹی نے بیان نہیں لیا۔
البتہ وفاقی کابینہ نے ایک اہم نکتہ نظرانداز کیا وہ ہے اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کمیٹی کو دیا گیا بیان، معاملہ مسٹر عباسی تک ہی محدود نہیں اس وقت کی سیاسی حکومت کے جو رہنما اس دھرنے سے لے کر حالیہ انکوائری کمیٹی کے قیام تک تواتر کے ساتھ فیض آباد دھرنا کیس پر سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے انکوائری کمیٹی میں انہوں نے جو بیان دیئے وہ ان بیانات سے یکسر مختلف تھے جو گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران انہوں نے دیئے۔
ہماری دانست میں وفاقی کابینہ کو انکوائری کمیٹی کی رپورٹ مسترد کرتے وقت مسلم لیگ (ن) کے چند سابق اور موجودہ رہنمائوں کے انکوائری کمیٹی میں دیئے گئے بیانات پر بھی دوٹوک موقف اپناتے ہوئے انہیں غیرذمہ دارانہ اور خلاف واقع قرار دینا چاہیے تھا۔
اسی طرح یہ امر بھی انکوائری کمیٹی کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ وہ فیض آباد دھرنے کے لئے لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے شرکاء کو لاہور سے فیض آباد راولپنڈی کے درمیان سہولتیں تعاون اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کو بھی طلب کرتی ان لوگوں کے نام اس وقت اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر نشروشائع ہوچکے۔
ثانیاً اس دھرنے کے شرکاء کو فیض آباد میں مختلف سہولتیں فراہم کرنے والوں میں شیخ رشید احمد، پی ٹی آئی اور چند دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کے نام بھی سامنے آئے تھے انہیں بیانات کے لئے طلب کرنے میں کیا امر مانع ہوا؟
بہرطور یہ امر خوش آئند ہے کہ وفاقی کابینہ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ مسترد کرکے نئی خصوصی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا اب یہ امید کی جائے کہ کمیٹی قیام کے بعد جب کارروائی شروع کرے تو وہ دوسرے کرداروں کے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ان دوسرے ذمہ داروں کو بھی حاضری اور بیان دینے کے لئے نوٹس کرے گی؟
ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک منتخب حکومت کے خلاف مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے اس دھرنے کے پیچھے موجود لوگوں کا احتساب نہیں ہوگا اصلاح احوال کی صورت کیا بننی ہے یہ بھی ممکن نہیں کہ مستقبل میں اس طرح کی سازشوں کا راستہ روکا جاسکے۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں، حکومتیں اور محکمے و ادارے اپنی اپنی ضرورتوں کے لئے نہ صرف مذہبی کارڈ کھیلتے ہیں بلکہ من پسند نتائج کے حصول کے لئے اس طرح کی تنظیموں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ یہ کہنا خلاف حقیقت ہرگز نہ ہوگا کہ پچھلی نصف صدی سے بالخصوص ریاستی سطح پر مذہبی شدت پسندی اور مسلح تنظیموں کی جہادوقتال کے نام پر جس طرح سرپرستی کی گئی اس نے بگاڑ کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہی بعض سیاسی و مذہبی رہنما اور ریاستی حکام ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ایک وقت میں محفوظ ملکی اثاثے قرار دیتے رہے ہیں۔
یہ بجا ہے کہ آج ماضی کے ان معاملات پر بحث اٹھانا وقت کا ضیاع ہوگا لیکن اگر فیض آباد دھرنے کی صاف و شفاف انکوائری رپورٹ مرتب ہو اور چند خودپسند کرداروں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جاسکے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہوگی مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ وفاقی اتحادی حکومت مضبوطی کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑی رہے۔
یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ فیض آباد انکوائری کمیٹی کے ٹی او آرز میں ایک پوائنٹ کا اضافہ کرتے ہوئے کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اس دھرنے کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں دھرنے کے سلوگن اور مقاصد کو کس سیاسی جماعت نے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور مخالفین کے خلاف لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے نیز یہ کہ کیا یہ سیاسی جماعت نے ازخود کیا یااس کے لئے ریاستی اداروں کا تعاون حاصل رہا؟
ہمارے خیال میں فیض آباد دھرنے اور 2018ء کی انتخابی مہم میں ختم نبوت کارڈ کھیلے جانے ہر دو کے مقاصد ایک ہی تھے۔ امید ہے کہ اب جب کہ تحقیقاتی کمیٹی دوبارہ بننی ہی ہے تو اس کا دائرہ اختیار بڑھاکر تحقیقات وسیع پیمانے پر کرالی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہوجائے۔