چند دن قبل "انجمن ترقی پسند مصنفین" لاہور کے سیکرٹری برادر عزیز مقصود خالق نے ٹیلیفون پر یاد کیا اور بتایا کہ معروف محقق و ناول نگار اور تاریخ نویس محمد حفیظ خان کے ساتھ پاک ٹی ہائوس میں انجمن کے زیراہتمام ایک شام منائی جارہی ہے۔ دوستوں کی خواہش ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ اس دو آشتہ دعوت سے کون انکار کرتا بھلا۔
"انجمن ترقی پسند مصنفین" بلائے اور وہ بھی "شامِ محمد حفیظ خان" میں اس لئے اپنی علالت جس میں حال ہی میں ایک نئی عارضی یا مستقل تکلیف کا اضافہ ہواہے کہ باوجود شرکت کا وعدہ کرلیا۔ مقصود خالق تقریب میں شرکت کے لئے وعدہ لے چکے تھے بولے شاہ جی صرف شرکت نہیں کرنی بلکہ محمد حفیظ خان کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات پر گفتگو بھی کرنا ہے۔
دل ہی دل میں ہم نے کہا "شاہ جی ہن آرام ہے"۔
محمد حفیظ خان کے ساتھ یہ شام 15 مئی بروز بدھ پاک ٹی ہائوس میں منعقد ہوئی علم و ادب اور دانش کے متعدد معتبر ناموں ڈاکٹر سعادت سعید، خالد فتح محمد، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر خالد سنجرانی، عابد حسین عابد، ریاض احمد اور ڈاکٹر غافر شہزاد کے ہمراہ مجھ طالب علم کو بھی سئیں محمد حفیظ خان کی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی اور تحقیقی سفر پر گفتگو کا موقع ملا۔
"شامِ محمد حفیظ خان" کے عنوان سے منعقدہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی تقریب ایک یادگار اور بھرپور تقریب تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ محمد حفیظ خان سے ہمارا تعارف نصف صدی سے دو تن برس اوپر کے عرصہ میں ہوا تھا تب آتش جواں تھا اور لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم کے ماہنامہ "سرائیکی ادب" میں افسانے لکھتا تھا۔ ان سے ہمارے تعارف کا وسیلہ ایک تو مرحوم عمر علی خان بلوچ تھے دوسرے سئیں یحییٰ کلاچی، حافظہ دھوکہ نہیں دے رہا تو معروف صحافی و ادیب سعید خاور (حال مقیم کراچی) اور صادق جنید ہوت سے بھی انہی شب و روز میں تعارف ہوا تھا۔
یہ ہم سب کے زمانہ طالب علمی کے ماہ و سال تھے۔ احمد پور شرقیہ میں ہمارے ماموں زاد بھائی مرحوم سید منور حسین بخاری مقیم تھے وہ محکمہ زراعت میں ملازمت کرتے تھے۔
زمانہ طالب علمی کی ہمارے عہد کی دوستیاں سردوگرم حالات کے باوجود قائم و دائم ہیں۔ غم روزگار نے دوستوں کو مختلف شہروں میں لے جا پھینکا۔ کچھ سے مستقل رابطے رہے کچھ سے برسوں یا عشروں بعد پھر رابطے استوار ہوئے۔
محمد حفیظ خان ان دوستوں میں سے ہیں جن سے زمانہ طالب علمی کے عشروں بعد اس وقت رابطہ ہوا جب میں نے برادر عزیز شاکر حسین شاکرکے آستانے "کتاب نگر" سے محمد حفیظ خان کی تصنیف مآثرِ ملتان (ملتان سداآباد) مطالعہ کے لئے لی۔
اس کتاب بارے بھی مجھے شاکر حسین شاکرنے بتایا۔ کہنے لگے شاہ جی آپ کے پرانے دوست حفیظ خان نے ملتان کی تاریخ پر ہمیشہ رہ جانے والا کام شروع کیا ہے۔ تاریخ ملتان پر ان کی تحقیق کی پہلی جلد شائع ہوئی ہے۔
تاریخ میرے چند پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔ پھر تاریخ اگر ملتان کی ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اب سونے پہ سہاگہ کہ یہ کتاب محمد حفیظ خان کی تھی۔
دسمبر 2011ء میں خریدی گئی "مآثرِ ملتان" اتفاق سے چند دن قبل دوبارہ مطالعہ کے لئے ریک میں سے نکال کر میز پر رکھی اور ابتداً سوکے قریب صفحات پڑھ چکا۔
مقصود خالق نے محمد حفیظ خان کے ساتھ شام منائے جانے کے پروگرام میں شرکت اور گفتگو کی دعوت دی تو "مآثرِ ملتان" کا مطالعہ دستک دینے لگا۔ ملتان کی تاریخ ہم ملتانیوں کے بہت سارے بزرگوں نے اپنے اپنے وقت پر لکھی مگر محمد حفیظ خان کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے تحقیقی کام سے ان سکہ بند متھوں کا کریا کرم کرادیا جن کی وجہ سے ملتانیوں کی کئی نسلیں یہ سوچتے کڑھتے قبروں میں جا سوئیں کہ "اگر حملہ آور نہ آتے تو ہم جاہل و کودن اور بے خبر ہی رہتے"۔
حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ بیرونی حملہ آوروں وہ قبل از اسلام کے تھے یا ظہور اسلام کے بعد کے ان کی جارحیت سے بھی صدیوں بلکہ ہزاریوں پہلے ملتان اپنے تہذیبی ارتقا، علم و فن اور احترام انسانیت کی لازوال دولتوں کی وجہ سے انڈس ویلی کا معروف اور زندہ شہر تھا۔
حملہ آور تو لوٹ مار کے لئے آتے ہیں، کس نے نہیں لوٹا اور بریاد کیا ملتان کو سکندر اعظم، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، رنجیت سنگھ، انگریز بہادر یا وہ دوسرے حملہ آور جن کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں۔
"مآثرِ ملتان" نے عقیدوں اور عقیدتوں کی سیاہی سے لکھی گئی تاریخ ملتان کی حقیقتوں کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑدیا۔ 22 دسمبر 2011ء کی سپہر محمد حفیظ خان سے لگ بھگ تین عشروں بعد دوبارہ رابطہ ہوا۔ اس زندہ تعلق اور رابطے کے دو وسیلے ہیں اولاً شاکر حسین شاکر ثانیاً حفیظ خان کی تصنیف "مآثرِ ملتان"۔
محمد حفیظ خان ماہر قانون دان ہے۔ عدالتی نظام میں سول جج کے طور پر شامل ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے طور پر باوقار انداز میں ریٹائر ہوئے اس درمیان لاہور ہائیکورٹ کے اہم انتظامی منصبوں کے علاوہ پنجاب کے سیکرٹری قانون اور چند دوسری خصوصی عدالتوں کے سربراہ بھی رہے۔
مجھے نصف صدی قبل ملنے والا وہ طالب علم دوست یاد آرہا ہے جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی تھی شکر ہے کہ وہ مسکراہٹ آج بھی حفیظ خان کے چہرے پر سلامت ہے اور دھیمے دھیمے انداز میں سرائیکی کے میٹھے لہجے کی حلاوت بھی ویسی ہی ہے۔
بدھ کی شام انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام منعقدہ تقریب "شامِ محمد حفیظ خان" میں دیگر صاحبان علم کے ساتھ مجھ طالب علم کو بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔ ہمارے ہاں چونکہ ابھی اتنی وسعتِ قلبی نہیں ہے کہ کچھ کھل کر بات کی جاسکی لیکن اس پر دو آراء نہیں کہ کسی بھی صاحب علم و فن کی شخصیت اور اس کی خدمات پر گفتگو کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ذات، جدوجہد کے مراحل اور علمی و ادبی خدمات پر گہری نہ سہی کچھ تو نگاہ ہوتاکہ کسی گفتگو کرنے والے کی باتوں سے سامعین کو یہ نہ لگے کہ بس زبانی کلامی کے خیرسگالی کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب آپ، میں یا کوئی اور انفرادی یا پھر تنظیمی طور پر کسی شخصیت کو مہمان کے طور پر بلاتے ہیں تو پھر یہ لازم ہے کہ اس شخصیت اور ان کی خدمات پر تفصیل سے بات ہو ناکہ ان تضادات و اختلافات پر اپنا اپنا تعصب بنٹوں کی طرح اچھالا جائے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے سماج کا حصہ ہیں۔
ہماری دانست میں محمد حفیظ خان کا سفر حیات جدوجہد بلکہ بھرپور جدوجہد سے عبارت ہے۔ سرائیکی میں افسانے لکھنے والا طالب علم آج محقق و تاریخ نویس اور ناول نگار کے طور پر معروف ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ نام نہاد اہل زبان مضافات کے شہروں اور قصبوں سے اٹھی سوچوں اور آوازوں کو بڑی مشکل سے مانتے ہیں۔ حفیظ خان بھی یقیناً ایسے تلخ تجربوں سے گزرے ہیں۔ ساعت بھر کے لئے رکئے مجھے اپنے مربی و مہربان بھائی جان شہید سید محسن نقوی یاد آئے ایک دن کہنے لگے "راجی پیارے یہ بڑے شہروں والے دوست سامنے کچھ اور غیر موجودگی میں کچھ ہوتے ہیں غزل بھی سنائو تو منہ پر داد دیتے ہیں بعد میں کہتے ہیں اس کی غزل پر بھی نوحے کا اثر ہے"۔
یہی کڑوا سچ ہے بڑے شہروں کو بڑا بنانے میں سبھی شامل ہوتے ہیں لیکن آپ کو کہیں نہ کہیں یہ سننے کو ضرور ملے گا۔ اس کے تو لہجے سے دیہاتی پن چھلکتا ہے۔
یقین کیجئے مجھ ایسے طالب علم کے لئے ایسی تقاریب کے آغاز سے قبل ہونے والی غیررسمی گفتگو تقریب میں ہوئے رسمی اظہار خیال سے زیادہ اہم رہیں۔
وجہ یہی ہے کہ جب رسمی اظہار خیال ہورہا ہو تو ادب آداب، رکھ رکھائو اور عالم فاضل ہونے کا مظاہرہ ضرورت بھی ہوتا ہے اور مجبوری بھی۔ لیکن غیررسمی گفتگو میں آدمی ہو یا دانشور، دونوں کا باطن کھل کر سامنے آتا ہے۔
بہرطور انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیراہتمام منعقدہ "شامِ محمد حفیظ خان" میں اہل دانش کی صاحب شام کی شخصیت اور علمی و ادبی خدمات کے سفر پر گفتگو اچھی تھی۔ عابد حسین عابد اور ڈاکٹر غافر شہزاد کی گفتگو دونوں صاحبان کے صاحب شام کے علمی و ادبی سفر سے کاملاً آگاہی کا ثبوت تھی۔ دیگر احباب نے اپنی اپنی جگہ حق ادا کرنے کی مکمل سعی کی مگر پتہ نہیں کیوں تشنگی کا احساس دوچند ہوا۔
حاضری کے اعتبار سے بھرپور تقریب تھی۔ تقریب کے میزبانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست شاہد بلوچ جس طرح متحرک رہے یہ ان کا خاصا ہے۔