عزیزم سید مہدی بخاری نے چند دن قبل ہمارے صحافتی سفر کے پچاس برسوں کی داستان کے کچھ حصے ریکارڈ کئے یہ انٹریو انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل پر پچاس پچاس منٹ کی دو اقساط میں نشر کیا۔ دونوں اقساط ہم نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر شیئر کیں۔ پچاس جمع پچاس، سو منٹ کی ان دو اقساط میں جو عرض کیا اس کے ہر لفظ پر قائم و دائم ہوں۔
ملتان میں مقیم میری ایک عزیزہ نے واٹس ایپ پر میسج میں کہا "تلخ نوائی بہت زیادہ ہوگئی ہمارے ہاں لوگ اس قدر کھلی ڈھلی گفتگو سننے کے عادی نہیں میں آپ کے لئے دعا گو ہوں"۔ میر احمد کامران مگسی اور دوسرے دوستوں عزیزوں کی آراء بھی اس عزیزہ سے ملتی جلتی ہیں۔
سیدی مہدی بخاری کے یوٹیوب چینل پر ایک صاحب نے اپنے کمنٹس میں کہا "خدا کو مان لینے کی دلیل بہت بودی ہے"۔
گزشتہ شب ملتانی منڈلی کے مستقل عزیزی سئیں طارق شیراز نے بھی اس حوالے سے سوال کیا۔ جواباً ان کی خدمت میں عرض کیا خدا کو جس وجہ سے مانا وہی عرض کی اب مجھ سے یہ نہیں ہوتا کہ کہوں لکھوں کہ "چونکہ پاکستان خدا کے نوروں میں سے ایک نور ہے اس لئے خدا کو مان لیا"۔
ہماری دانست میں" اقرار کا نغمہ سرشاری کے بغیر ہو تو خالی ڈھول ہے جو ڈھولچی بجائے تو اس پر رقص کرنے کو جی نہیں کرتا بلکہ پردہ سماعت کو پھٹنے سے بچانے کے لئے آدمی کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے پر مجبور ہوجاتا ہے"۔
اپنے سفر حیات خاندانی پس منظر بچپن و الہڑ جوانی کو مشقت کے نگل جانے کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی۔ ہمارے ایک ملتانی عزیز برادرم جمیل اصغر نے ڈیڑھ عشرہ قبل سرائیکی چینل وسیب پر ہمارے سفر حیات پر انٹرویو کیا تھا جس دن وہ انٹرویو وسیب چینل پر نشر ہوا اس سے اگلے دن ملتان کی درجنوں عفت مآب خواتین جن کے خاندان صدی بھر سے ہماری نانی اماں، خالائوں اور ہماری امڑی حضور سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار کئے ہوئے ہیں ہماری دو بہنوں کے گھر تشریف لے گئیں۔
ان محترم خواتین کا سوال ایک ہی تھا "بی بی جی جاوید میاں نے ٹی وی تے آکھے میں چوتھی پڑھدا ہم جڈن نماز نہ پڑھن تے ابا جی ماریا تے میں گھروں بھج گیوم"۔
ہماری دونوں بہنوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس میں جھوٹ کیا ہے یہی سچ ہے ہم نے تو جاوید کو پھر اس وقت دیکھا جب وہ میٹرک پاس کرچکا تھا۔
ایک خاتون بولیں"بی بی جی تساں جاوید میاں کو گولیاں نا؟" بہنوں نے جواب دیا "تلاش کیا اور کروایا تھا نہیں مل پایا امی جان برسوں نماز والے تخت پوش پر ہی ذکر و عبادات کے بعد آرام کرلیتی تھیں کہتی تھیں پتہ نہیں میرا لعل کس حال میں ہوگا"۔ یہ دو باتیں مجھے اس لئے یاد آگئیں کہ سیدی مہدی بخاری کو دیئے گئے انٹرویو میں بھی میں نے اوائل زندگی کی باتیں کرتے ہوئے وہی کچھ کہا جو ڈیڑھ عشرہ قبل برادرم جمیل اصغر کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا۔
اچھا ویسے میں چھپائوں کیا یا بڑھ چڑھ کر ڈینگیں کیا ماروں؟ ایک سفید پوش والدین کی اولاد ہوں۔ والد صاحب فوج سے رخصت کئے گئے تو انہوں نے دو تین کاروبار کئے ان میں نقصان ہوا۔ کچھ ماہ یا سال بھر لیور برادرز رحیم یارخان میں ملازمت کی پھر سعودی عرب چلے گئے۔ عشروں وہاں ملازمت کی۔ افغانستان میں سوویت امریکہ جنگ جسے ہمارے ہاں جہاد کہا جاتا ہے کا آغاز ہوا تو انہیں جماعت نے سعودی عرب سے بلواکر جہاد پر لگادیا۔
افغان سرزمین پر ہی وہ خود پر ہوئے ایک حملے میں راہی ملک عدم ہوئے ہمارا خاندان آج بھی انجینئر گل بدین حکمت یار اور مرحوم قاضی حسین احمد کا شکر گزار ہے کہ ان کی کوششوں سے بابا جان کا تابوت میں بند جسد خاکی افغانستان سے ملتان لے آیا گیا اور ہمارے آبائی قبرستان میں جو پرانے خانیوال اڈا کے عقب میں واقع ہے ان کی تدفین ہوئی۔
والدہ محترمہ وعظ فرماتی تھیں، ہماری نانی اماں اور خالائیں بھی وعظ کرتی تھیں اسی لئے ملتانیوں کے خاندان انہیں احترام سے بی بیوں کا خاندان کہتے یہ وہ زمانے تھے جب خواتین اور خصوصاً سید زادویوں کا نام لینے کی بجائے انہیں ان کے نام کی مناسبت سے بنائی گئی عرفیت سے بلایا جاتا تھا اسی احترام بھرے رواج کی بدولت پیر سید عبدالرحمن شاہ بخاریؒ کی دختر نیک اختر اور بیگم سید محمود انور بخاری سیدہ نسیم عائشہ بخاری کو سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
مجھے تو آج بھی فخر ہے اور آخری سانس کیا اگلے جہان (اگر ہوا تو) میں بھی فخر رہے گا کہ میں اس وعظ والی بی بی کا بیٹا ہوں جو نماز عشا کے بعد اس وقت تک اپنے مخصوص تخت پوش پر بیٹھی رہتیں جب تک دن بھر میں عقیدت مند خواتین کی طرف سے پیش کی گئی نذر نیاز اور وعظ کے دوران ملنے والے ہدیہ کی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم نہیں کردیتی تھیں۔
والد صاحب سعودی عرب میں ایک فیکٹری میں منیجر تھے وہ اپنی تنخواہ کے تین حصے کرتے ایک اہلیہ اور بچوں کے لئے ایک حصہ جماعت اسلامی کے لئے اور ایک حصہ اپنے لئے رکھتے اسی میں سے وہ اپنے بعض ضرورت مند عزیزوں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔
(اپنے والد بزرگوار سے اختلاف کی کہانی نماز نہ پڑھنے پر کئے جانے والے تشدد سے شروع ہوئی اور 1990 کے رمضان المبارک کے آغاز سے چند دن قبل اس وقت تمام ہوئی جب وہ میرے گھر شیخوپورہ میں مجھے اور اپنی بہو سے ملنے کیلئے تشریف لائے اور پانچ دن ہمارے پاس رہے)۔
ساڑھے نو سال کا بچہ حیران تھا کہ امی جان کہتی ہیں خدا سب سے بڑا رحیم ہے مگر ابا جان کہتے ہیں جو بچہ نماز نہ پڑھے اس کی ٹھکائی خدائی حکم ہے۔
گھر سے بھاگ جانا ایک ردعمل تھا میرے خیال میں درست تھا۔ البتہ اپنی والدہ حضور کے لئے ملتان میں جو عزت و احترام میں دیکھ چکا تھا اس کی وجہ سے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہوگئی تھی کہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے والدہ صاحبہ دکھی ہوں یا لوگ میری طرف انگلی اٹھاکر کہیں"ڈیکھو اے وی عاشو بی بی وعظ آلی دا بال ہیوے"۔
ہمارا خاندان روایتی طور پر پیر گھرانہ ہر گز نہیں تھا صدی ڈیڑھ صدی بھر سے ملتان میں جو لوگ ہمارے خاندان کا احترام کرتے ہیں وہ ہمارے بزرگوں کے علم و حلم انسان دوستی، جمع کی بجائے تقسیم کرنے کی عادت اور وعظوں میں خطاب کرنے کی وجہ سے کرتے ہیں۔
ہماری والدہ کے انتقال کے بعد چوک خونی برج کے قریب محلہ اسحق پورہ میں واقع ہمارے آبائی گھر میں خواتین اور عزیزواقارب نے نماز فجر کے بعد ان کے چہرے کی زیارت شروع کی دن گیارہ بجے کے قریب ہم تین بڑے بہن بھائیوں نے مشکل سے بہنوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ گرمی بڑھ رہی ہے لوگ صبح سے گلیوں اور باہر چوک خونی برج پر جنازہ اٹھائے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔
لگ بھگ سات ساڑھے سات گھنٹے بی بی جی کا چہرہ دیکھائے جانے کے باوجود بھی مجھے آج بھی بہنوں کے توسط سے یہ شکوہ سننے کو ملتا ہے "بھیا وہ فلاں خالہ اماں کی بیٹی یا نواسی کہہ رہی تھیں جاوید میاں اور دوسرے بھائی جانوں نے ہمیں بی بی جی کا آخری دیدار کرنے سے محروم رکھا اور جنازہ جلدی اٹھا لیا"۔
معاف کیجئے گا بات تو سیدی مہدی بخاری کو ان کے یوٹیوب چینل کے لئے دیئے گئے اس انٹریو سے شروع ہوئی تھی جو انہوں نے دو قسطوں میں نشر کردیا بہت سارے دوستوں اور چند عزیزوں کی تحسین نے میری ہمت بڑھائی۔ ایک محبوب دوست نے آج صبح دم ٹیلیفون پر یاد کیا اور ڈانٹتے ہوئے کہا "کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی کہ میرے دوست مجھے کسی کا محتاج نہیں ہونے دیتے، ہم دوستی ک حق آدا کرتے ہیں احسان نہیں کرتے تم پر"۔ عرض کیا "میں ناشکروں کی اولاد تھوڑا ہی ہوں کہ شکر گزار نہ رہوں"۔
مہدی بخاری کو دیئے گئے انٹرویو میں نصف صدی پر پھیلی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع ملا بہت ساری باتیں رہ بھی گئیں خیر نہ کہی اور رہ جانے والی باتیں اپنی سوانح عمری میں رقم کردوں گا فی الوقت یہی ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں سیدہ عاشو بی بی وعظ والیؒ کا وہ خوش نصیب بیٹا ہوں جسے آپا سیدہ فیروزہ خاتونؒ نے محنت مشقت کرکے پالا پوسا اور پروان چڑھایا اپنی دونوں مائوں کے احترام میں سر جھکاتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اور ہمارے دوست و بھائی شاکر حسین شاکر کی والدہ محترمہ کو حضور بی بی سیدہ پاک بتول سلام اللہ علیہا کی محبوں میں شمار فرمائے، آمین۔