Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. 26 Ke Baad 25

26 Ke Baad 25

پچیس اور چھبیس کا کھیل دیکھنے میں محو عوام نتائج جان چکی ہے جس سے یہ طے ہوگیا ہے کہ نہ صرف رواں ماہ پچیس اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں گے اور جسٹس منصور علی شاہ کا اِس عہدے پر فائز ہونے کا کوئی امکان نہیں رہا بلکہ یہ بھی ابہام دور ہوگیا ہے کہ بدلے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے وفاداریاں تبدیل کرانا اب بھی حکومت کے لیے کچھ خاص مشکل نہیں۔

علاوہ ازیں اِس کھیل میں جمہوریت، آئین اور ووٹ کی عزت کے کئی دعویدار بھی اِس بُری طرح بے نقاب ہوئے ہیں کہ شاید بقیہ سیاسی حیات اپنے کردار کی صفائیاں دیتے گزار دیں حالانکہ ملک کا اندازِ سیاست بڑی حد تک تبدیل ہو چکا ہے لیکن چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے دوران ایک بار پھر آشکار ہوگیا کہ تبدیلی نے سیاست کومتاثر نہیں کیا۔ مقبول جماعتوں کی اہمیت اپنی جگہ، مگر اہل اقتدار سے مراسم بنانے اور پُختہ کرنا اب بھی ممبرانِ پارلیمنٹ کی اولیں ترجیح ہے اور جب فوائد پر مبنی پیشکش ہوتو ضمیر کی آواز، اصول اور بیانیہ قربان کرنے والے کشاں کشاں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی رموز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بکنے اور خریدنے کا کھیل اب بھی جاری ہے اگر خریدار حکومت ہو تورمزشناس سودوزیاں اپوزیشن وفادایاں فروخت کر سکتی ہے۔

چھبیسویں ترامیم کی منظوری پر حکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے حکومتی حلقے اپنے تئیں مستقبل محفوظ بناکر خوش ہیں۔ اِس خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول ترین ہونے کی دعویدار جماعت کو بے اثر کرنا بھی ہے مگر کیا حاکمانِ وقت اپنا مستقبل واقعی محفوظ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں؟ اِس سوال کا وثوق سے حق یا نفی میں جواب دینا ابھی قبل ازوقت ہوگا کیونکہ فی الوقت حکومت اور مقتدرہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مشکل میں ایک دوسرے کی مددگار ہیں۔

لیکن یہ ضرورت تاحیات برقرار نہیں رہ سکتی بلکہ کسی وقت ختم بھی ہو سکتی ہے جب ایک فریق دوسرے کے لیے بوجھ بن جائے یاکسی کو زیادہ بہتر متبادل مل جائے۔ ایسے حالات میں الزامات لگاتے ہوئے تعلقات اور تعاون کا رتی بھر لحاظ کرنے کی ملکی سیاست میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غیر مقبولیت، معاشی تباہی، ملکی مفاد کے منافی کام سمیت رائندہ درگاہ کرتے وقت ایسے ایسے جواز پیش کیے جائیں گے کہ رُخصت ہونے والا اِتنا بھی کہنے کی جسارت نہیں کر پائے گاکہ

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

کچھ لوگ اب بھی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں مگر زمینی حقائق فوری طور پر ایسے کسی خیال کی نفی کرتے ہیں البتہ بلاول بھٹو اپنی بھاگ دوڑ سے یہ یقین دلانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں کہ اگر انھیں بھی آزما لیا جائے تو نافرمان نہیں بلکہ تابعدار ثابت ہوں گے۔ خیر یہ طے ہے کہ حکومت کو مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اسی لیے زرائع ابلاغ سمیت اہم حلقے ہدفِ تنقید بنانے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ حمایت یا تو اپوزیشن کی مقبولیت تک میسر رہ سکتی ہے یا پھر ایسی صورتحال پیدا ہونے تک کہ مقتدرہ اور اپوزیشن میں سلسلہ جنبانی کا آغاز ہو جائے۔ اسی لیے اگر مقتدرہ کا تعاون برقرار رکھنا ہے تو نہ صرف مقبول اور طاقتور اپوزیشن کا ہوا برقرار رہنا ضروری ہے بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ بھی ثابت کرنا لازم ہے کہ اپوزیشن سے زیادہ وہ تابعدار ہے لہذا کسی نئے تجربے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔

چھبیس کے بعد اب حکومت کی نظر پچیس پر ہے کیونکہ چھبیسویں ترامیم کی منظوری کے بعد اب پچیس اکتوبر کو نئے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کرنی ہے اِس منصب پر کِس کی تقرری کرنا ہے؟ اِس کے لیے مقتدرہ کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے ایسے کسی چہرے کوآگے لانا ضروری ہے جس سے نظام کی بقا کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ اِس حوالے سے گزشتہ روزپارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوچکا آئینی ترامیم سے حکومت کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ اب اپوزیشن کوشش کربھی لے تو وہ حکومت کو من مانی سے روکنے کے قابل نہیں رہی۔ خیر قابل تو وہ پہلے بھی نہیں تھی اگر ہوتی تو کیا سینیٹ میں صرف چار جبکہ قومی اسمبلی میں بارہ اراکین ہی مخالفت میں ووٹ دیتے مگر ایسا ہوا جس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن تمام تر شور شرابے کے باوجود اندر کھاتے ملنے والی ہدایات پر عمل پیرا ہے۔

وہ تو احتجاج بھی ایسے انداز میں کرتی ہے کہ کسی کی جبین شکن آلود ہونے کااحتمال نہ رہے۔ اِس تناظر میں اپوزیشن کا ایوانوں سے غیر حاضر رہنا طے شدہ حکمتِ عملی لگتا ہے کیونکہ جس جماعت کے اکثر عہدے قانون دانوں کے پاس ہوں وہ ایسی بچگانہ سیاست کرے جس پر عوامی یا سیاسی پُختگی کا رنگ ناپید ہو ناقابلِ فہم ہے۔ ماضی میں بھی اِس جماعت نے پی ڈی ایم کی حکومت بننے پر قومی اسمبلی کو خیرباد کہہ کر اور پنجاب و کے پی کے میں قائم اپنی ہی حکومتیں توڑ کر جس حماقت کا مظاہرہ کیا تھا وہی اندازِ سیاست اب بھی ہے۔

اسی لیا کہا جارہا ہے کہ یا تو یہ جماعت ماضی کی حماقتوں سے سیکھنے پر تیار نہیں یا پھر تابعداری کا یقین دلانے کے لیے سخت بے چین ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عین گنتی کے وقت ایوانوں میں موجودگی یقینی بناتی اور کم ازکم اپنا اختلافی کردار تو ادا کرتی مگر یہاں تو پارلیمنٹ سے فرار کو ہی آسان نسخہ کیمیا تصور کرلیا گیا۔ اُن سے تو جے یو آئی نے زیادہ فہم و فراست کا مظاہرہ کیا، نہ صرف آئینی عدالت بنانے کا تہیہ کیے بلاول کو آئینی بینچ بنانے پر راضی کر لیا بلکہ 2028 تک ملک سے مکمل طور پر سود ختم کرانے کی شرط حکومتی منظور کرالی جس سے کم ازکم اسلام پسندوں کا دل جیتنے میں تو کامیاب ہو سکتی ہے۔

شاید کسی نے حکومت کو یقین دلا دیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اگر چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تو حکومت کمزور ہو جائے گی اسی لیے ایک ہی شب میں سینٹ اور قومی اسمبلی سے آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے تمام وسائل جھونک دیے گئے حالانکہ کوئی بھی ناگزیر نہیں۔ چہرے تو آتے جاتے رہتے ہیں اصل اہمیت نظام کی ہے جسے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جو عوامی مسائل کے حل میں ممد و معاون ہو۔

سچ یہ ہے کہ جج کا کام انصاف کرنا اور صحافی ہر خاص و عام کو باخبر رکھتا ہے جبکہ نظام کو عوامی و فلاحی بنانے میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے لیکن چھبیسویں ترامیم کی منظوری سے کسی کا کردار پوشیدہ نہیں رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کاوشیں کہاں تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں؟ اِس کے درست جواب کے لیے طویل عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔