Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Akhtar Mengal Ke Istefe Ki Wajoohat

Akhtar Mengal Ke Istefe Ki Wajoohat

آمریت اور صحت مند جمہوری نظام میں فرق ہے، آمریت میں فیصلوں کا اختیار فردِ واحد کے پاس ہوتا ہے جبکہ صحت مند جمہوریت میں عوام اور حکومت کے درمیان منتخب نمائندے پل کی مانند ہوتے ہیں۔ اِس نظام میں عوام خود کو اپنے نمائندوں کی صورت میں حکومتی فیصلوں میں شامل ہونے کی وجہ سے خود کو بااختیار تصور کرتے ہیں کیونکہ معینہ مدت کے بعد انتخابات ہونے کی وجہ سے عوام کو اپنے نمائندوں کے محاسبے کا ملتا ہے ہر کچھ عرصے بعد ووٹوں کے لیے عوام میں جانے کی وجہ سے اکثر منتخب نمائندے عوامی پسند و ناپسند کوملحوظِ خاطر رکھتے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوامی اعتماد میں کمی نہ آئے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی روایت پختہ ہورہی ہے جو صحت مند جمہوریت کی نفی ہے اگر سیاستدان ذاتی کے بجائے عوامی مفاد کا تحفظ کریں تو پارلیمانی نظام اور سیاسی جماعتیں نہ صرف مضبوط ہوں بلکہ عوام بھی خود کونظام کا اہم حصہ تصور کریں، مگر ایسا نہیں ہو رہا سیاسی جماعتیں اقتدار کو ہی منزل تصور کرتی ہیں یہی سوچ عوامی نمائندوں تک وسیع ہو چکی ہے وہ بھی ذاتی مفاد کے لیے جماعتیں تبدیل کرنے کو معیوب نہیں سمجھتے یہ روایت پاکستان میں ایک صحت مند پارلیمانی نظام مضبوط بنانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اختر مینگل کا استعفیٰ ایک صحت مند جمہوری نظام کی نہ صرف نفی ہے بلکہ علاقائی سوچ کے سرایت کرنے کی تائید ہے۔ اُن کی جماعت کے پاس 2028 میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں تھیں۔ یہ جماعت لاپتہ افراد کے حوالے سے چند شرائط پر مبنی ایک معاہدہ طے پانے پر ابتدا میں پی ٹی آئی حکومت میں شامل ہوئی مگرشرائط پوری نہ کرنے کا گلہ کرتے ہوئے حکومت سے الگ ہوگئی اور جب پی ڈی ایم جیسے کثیر جماعتی اتحاد نے عدمِ اعتماد پیش کی تو یہی اختر مینگل ہر معاملے میں پیش پیش نظر آئے، لیکن پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی سے عوام میں شدید نفرت نے جنم لیا اسی بناپر رواں برس آٹھ فروری کے انتخابات میں اِس اتحاد میں شامل کوئی جماعت بھی اِتنی اکثریت حاصل نہ ہو سکی کہ یک و تنہا حکومت تشکیل دے سکے۔

عوام میں پیداہونے والی نفرت کا شکار بی این پی بھی ہوئی اور اب قومی اسمبلی کی ایک نشست تک محدود ہوچکی ہے اسی لیے عام خیال یہ ہے کہ اختر مینگل زیادہ نشستیں حاصل نہ ملنے پر رنجیدہ و خفا ہے اور مقتدر حلقوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُنھیں زیادہ حصہ دینے کا کوئی بندوبست کیا جائے۔

بی این پی کوئی بڑی جماعت نہیں مگر عطااللہ مینگل اور اختر مینگل دونوں کے پاس بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب رہا ہے۔ عطااللہ مینگل کی حکومت ذوالفقارعلی بھٹو نے 13فروری 1973 کو ختم کر دی البتہ کئی خرابیوں کے باوجود صوبے سے سرداری نظام کے خاتمے کے خلاف قرارداد پیش کرنے اور منظور کرانے نیز صوبے میں اردو زبان کو دفتری زبان بنانے جیسے کارناموں کی وجہ سے قومی قیادت آج بھی تحسین کرتی ہے مگر اُن کے ایک بیٹے اسداللہ مینگل کے بارے ایسی اطلاعات گردش کرتی رہیں کہ وہ ملک مخالف سرگرمیوں کا حصہ تھے، لیکن اُن کے انجام بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ افغانستان چلا گیا جبکہ کچھ کا موقف ہے کہ وہ غیر طبعی موت کا شکار ہوا لیکن بیٹے کی جدائی کے صدمے میں عطااللہ مینگل پھر کبھی لاہور شہر نہ آئے۔ 1997 کے عام انتخابات کے نتیجے میں اختر مینگل وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے مگر سولہ ماہ بعد ہی نواز شریف نے اُنھیں عہدے سے ہٹا دیا مگر سوال یہ ہے کہ دوبار صوبے کا سب سے بڑا منصب ملنے کے باوجود اچھی کارکردگی سے عوام کے دل کیوں نہ جیتے جا سکے؟ اور یہ کہ دونوں بار ہی کیوں مدت پوری نہ کی جا سکی؟

بظاہر اِس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ خدمات کے بجائے مراعات زیادہ پسند ہیں اور اکھڑ طبیعت اقتدارسے محرومی کا باعث بنتی رہی اگر مراعات کے بجائے خدمات اور افہام و تفہیم کی سیاست کی جاتی تو آج بلوچستان میں ایک نشست تک محدودنہ ہونا پڑتا۔ اختر مینگل کو سرفراز بگٹی کے وزیرِ اعلیٰ بنائے جانے پر سخت صدمہ ہے ظاہر ہے پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت ہے اور وہ اسی اکثریت کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں جو کہ ایک جمہوری طریقہ کار ہے قومی اسمبلی میں ایک نشست رکھنے والے کو تو پوراصوبہ نہیں سونپا جا سکتا۔

رواں ماہ 3 ستمبر منگل کو بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے یہ کہہ کر قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا کہ ہماری آواز نہیں سنی جاتی لہٰذا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اُن کے بقول 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے لیکن اُن سے معافی مانگتا ہوں کہ اُن کے لیے کچھ نہیں کر سکا مگر کیا بات اِتنی سادہ ہے جیسے بیان کی جارہی ہے؟

میرے خیال میں استعفے کی اصل وجہ یہ نہیں کچھ اور ہے بات دراصل یہ ہے کہ گزشتہ ماہ 26 اگست کوصوبے میں بدترین قتلِ عام کیا گیا جس میں درجنوں ایسے معصوم اور نہتے شہریوں کی جانیں لے لی گئیں جن کا سیاست یا سکیورٹی معاملات سے دورکا بھی تعلق نہ تھا۔ اِس خونریزی کی وجہ سے سکیورٹی اِداروں پر شدید عوامی دباؤ ہے کہ نرمی یا رحمدلی کی پالیسی بالائے طاق رکھ کر امن دشمن عناصر کے خلاف ٹھوس اور نتیجہ خیز کارروائی کاآغازکیا جائے۔

اِس سے قبل کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی نشست کو خیرباد کہہ کر اپنی ناراضی ظاہر کی ہے جس کا مقصد صوبے میں امن دشمن عناصر کے خلاف ہر نوعیت کی کارروائی روکنا ہے حالانکہ چند روز قبل کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اختر مینگل کو دعوت دی گئی تو انھوں نے یہ کہہ کر اجلاس میں بیٹھنے سے انکار کردیا کہ میری جماعت کے پاس تو قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست ہے اِس لیے میں اسٹیک ہولڈر نہیں زیادہ نشستیں ن لیگ اور پی پی کے پاس ہیں لہٰذا بلوچستان کا مسئلہ وہی جماعتیں حل کریں۔

حالانکہ یہ اجلاس مسائل بتانے کا اچھا موقع تھا اور حکومت سے صوبے کے لوگوں کے لیے وسائل میں اضافے کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا تھا لیکن اختر مینگل کا جان بوجھ کر اجتناب کرنا ثابت کرتا ہے کہ اُنھیں صوبائی مفادات سے کوئی غرض نہیں بلکہ اُن کے اہداف اور ہیں اور وہ صوبے میں شرپسندوں کے خلاف کسی سرگرمی کے حق میں نہیں۔ استعفیٰ واپس لینے کے لیے اختر مینگل سے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے رابطے کیے ہیں جو اِس امر کی علامت ہے کہ قومی قیادت اختر مینگل کو بزرگ اور زیرک سیاستدان سمجھتی ہیں مگر بزرگ اور زیرک سے کون سی قوتیں غلط فیصلے کرارہی ہیں اِس کا کھوج لگانے کی بھی ضرورت ہے لیکن جہاں تک شرپسندوں سے نرمی کی بات ہے حکومت یا سکیورٹی اِداروں کو ایسے کسی بھی مطالبے کومستردکر دینا چاہیے کیونکہ عوامی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔