Wednesday, 19 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Dehshat Gardi Mein Tashweehnak Izafa

    Dehshat Gardi Mein Tashweehnak Izafa

    ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو بہت تشویشناک ہے۔ قومی سلامتی کے اِدارے تدارک میں مصروف ہیں لیکن تمام تر قربانیوں کے باوجود بہتری کے آثار کا فقدان ہے۔ بلوچستان میں بی ایل اے کی دہشت گردانہ سرگرمیاں شدت اختیار کرنے لگی ہیں جبکہ کے پی کے میں ٹی ٹی پی کا فتنہ قوی ہونے لگا ہے۔ گزشتہ دو روز میں اِس فتنے نے بارہ واقعات میں پولیس اور قومی سلامتی کے اِدارے کو نشانہ بنایا۔ بڑھتی بدامنی کا تقاضا ہے کہ دہشت گردوں سے لڑنے اور عسکری قربانیوں پر تکیہ کرنے کے ساتھ امن و امان قائم کرنے کے لیے سیاسی قیادت بھی متحرک ہو جو تمام پہلوؤں پر کام کرے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف سپاہ تو میدان میں ہے لیکن سیاسی قیادت اقتدار و اختیار سے سے لطف اندوز ہونے تک محدود ہے۔ اِس طرزِ عمل کی ہرگز ستائش نہیں کی جا سکتی، ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے عسکری و سیاسی قیادت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہو۔

    پاکستان کو جتنا نقصان دہشت گردی سے ہوا ہے اُس کے عشر عشیر بھی جنگوں میں نہیں ہوا مگر سچ یہ ہے کہ آج بھی ملک میں ایسے لوگ ہیں جو دہشت گردانہ کاروائیوں کا جواز پیش کرتے ہیں اور انھیں محرومیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ دنیا میں کسی ملک میں دہشت گردی ہو تو تمام مکاتبِ فکر دہشت گردوں سے نفرت اور متاثرین سے ہمدردی کرتے ہیں لیکن ہمارا ملک جسے کئی عشروں سے دہشت گردی جیسے ناسور کا سامنا ہے ابھی تک ایسی فضا محروم ہے۔

    کچھ لوگ اگر دہشت گردی کو احساسِ محرومی کا نتیجہ کہتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جو اِس ناسور کو اسلام سے دوری قرار دیتے ہیں حالانکہ احساسِ محرومی کو دہشت گردی سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ دہشت گردی کی بجائے لازم ہے کہ تعمیر و ترقی اور تعلیم و صحت کی بہتری جیسے مطالبات پیش کیے جائیں۔ صنعت و زراعت کی ترقی میں تعاون سے روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں مگر دہشت گردی میں ملوث عناصر کا ایجنڈا نفرت کے فروغ پر مبنی ہے۔ یہ تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے ساتھ صحت و تعلیم کی سرگرمیوں کے خلاف ہیں۔ یہ صنعت و زراعت کی ترقی کے منصوبوں کو سبوتاژ کرتے ہیں جس کا جواب میں یہ ہونا چاہیے کہ ہر شہری سیکورٹی اِداروں سے تعاون کرے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری کاروائیاں نتیجہ خیز ہوں۔

    اسلام میں دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں بلکہ کسی بے گناہ اور معصوم پر ہاتھ اُٹھانے کو اسلام میں ناپسند کیا گیا ہے۔ اِس لیے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کی جانیں لینے والے دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے منافی سرگرمیوں کی بناپر اُنھیں دین سے خارج کہنا ہی عین انصاف ہے کیونکہ جو مساجد کو نشانہ بناتے اور نمازیوں کا خون بہاتے ہیں علمائے دین پر حملے کرتے ہیں اسلامی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں وہ مسلمان کہلوانے کے حقدار نہیں، لہذا ایسے لوگوں سے پیشہ ور قاتلوں سا سلوک ہی انصاف ہے۔

    اب بھی وقت ہے جو عوامی حلقے دہشت گردوں کے لیے دل و دماغ میں مثبت سوچ رکھتے ہیں وہ اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں چاہے نظام میں خامیاں سہی مگر یاد رکھیں پاکستان ہماری شناخت ہے اور جو اپنی شناخت سے محروم ہوتا ہے ذلت و رسوائی اُس کا مقدر بن جاتی ہے اغیار سب سے پہلے عزت پر حملہ کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے حصے بخرے ہوئے تو وہاں کی خواتین یورپ اور دیگر امیر ممالک میں فروخت ہوئیں شام، عراق اور لیبیا کی صنفِ نازک بھی آجکل ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں۔ تو ڈریے اُس وقت سے جب ہمیں بھی ایسے حالات کا سامنا ہو خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت مین اغیار ہمیں بُرے انجام سے دوچار کرنے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کریں گے۔ اِس دوران نہ تو کوئی سُنی، شعیہ دیکھا جائے گا نہ ہی قوم پرستی کو خاطر میں لائیں گے لہذا وقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے میں سیکورٹی دستوں کا معاونت کریں تاکہ اغیار کی مزموم شازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔

    مقامِ اطمنان یہ ہے کہ پاکستان دیوالیہ کے خطرے سے نکل آیا ہے۔ بجلی سستی کرنے کی تجاویز پر بھی کام ہورہا ہے توانائی کے نرخ کم ہونے سے صنعت و زراعت میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں بہتری آنے سے اُمید کی رمق پیدا ہوئی ہے کہ انشااللہ جلد ہمارا پیارا وطن پاکستان معاشی مشکلات سے نکل آئے گا۔ مجھے حکومت اور اپوزیشن سے کوئی سروکار نہیں البتہ اپنے ملک اور شہریوں سے ہے۔ اگر پاکستان میں امن قائم ہوگا لوگ خوشحال ہوں گے تو ہمارے وطن کی عزت و ساکھ میں اضافہ ہوگا۔

    ماضی قریب کی غلط پالیسیوں سے پی آئی اے، ریل، اسٹیل ملز جیسے اہم اِدارے تباہ ہوئے اور پاکستان قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی میں ناکام ہوتا گیا اِس کا نقصان یہ ہوا کہ عام آدمی کا ملک پر اعتماد کم ہونے لگا اور بیرونِ ملک جانے کا رجحان فروغ پاتا گیا۔ لوگ جائز و ناجائز طریقے سے امیر ممالک کا رخ کرتے سمندر وں میں ڈوب کر اور راستوں کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جانیں قربان کرنے لگے۔ آج اقوامِ عالم میں پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کمزور ترین ہے اگر ایسے حالات کو تادیر برقرار رکھنے سے روکنا ہے تو ہمیں جتماعی سوچ پیدا کرنا ہوگی وطن پرستی کے جذبات کو فروغ دینا ہوگا دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے قومی سلامتی کے ذمہ دار اِداروں سے محبت کرنا ہوگی۔

    حالات بدلتے دیر نہیں لگتی جو آج حکومت میں ہیں عین ممکن ہے مستقبل قریب میں وہ اپوزیشن کی حثیت سے سیاسی میدان میں ہوں اور جو آج اپوزیشن میں ہیں ممکن ہے کل حکومت میں ہوں لیکن سیاست کو دشمنی کی حد تک لیجانے کی نوبت لانا جمہوریت نہیں۔ بات چیت سے مسائل کا حل تلاش کرنا رواداری اور برداشت کو فروغ دینا ہی جمہوریت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں سیاست بھی خدمت کی بجائے مفاد پرستی میں ڈھل گئی ہے اور سیاست کو دشمنی سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ قابل تعریف یا ستائش طرزِ عمل نہیں۔

    ملک میں ایک طرف دہشت گرد گروہ منظم حملوں میں مصروف ہیں تو اتحاد سے جواب دینے کی بجائے سیاسی قیادت نے ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے دروازے تک بند کررکھے ہیں۔ اِس پر دونوں کو نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہے تو سیاسی قیادت کو عسکری قیادت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے اور زرائع ابلاغ سے لیکر تمام مکاتبِ فکر کو دہشت گردوں کو دشمن تصور کرنا ہوگا۔