Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Gadagari Aik Lanat

    Gadagari Aik Lanat

    پنجاب حکومت ایسے لوگوں کے خلاف صوبہ میں سخت کاروائیاں کررہی ہے جو صحت مند ہونے کے باوجود گداگری کرتے ہیں حالانکہ یہ صحت مندی شہری محنت سے حلال رزق کما سکتے ہیں لیکن یہ گداگر معاشرے پربوجھ تو تھے ہی اب بیرونِ ملک بھی بھیک مانگ کر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں حکومتی کاروائیوں کے نتیجے میں گداگری کے پیشے سے وابستہ بڑی تعداد ہراس کاشکار ہے مگر بغیر محنت اور سرمایہ کاری حاصل ہونے والی دولت میں ایسی کشش ہے جو گداگری کے خاتمے میں رکاوٹ ہے اب تو گداگروں کے گروہوں نے ایسے معصوم بچوں کو بھی استعما ل کرنا شروع کردیا ہے جنھیں تعلیم وتربیت سے معاشرے کا باآسانی کارآمد شہری بنایا جا سکتاہے ایسی اطلاعات بھی منظرِ عام پر آچکی ہیں کہ گداگری کے پیشے سے وابستہ لوگ نہ صرف چوری اور اغوا جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں بلکہ یہ جرائم پیشہ گروہوں کے لیے مخبری کاکام بھی کرتے ہیں اور بھیک مانگتے ہوئے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں اِس لیے چاہے نتائج محدود سہی حکومتی کاروائیوں کی شہری تحسین و ستائش کررہے ہیں۔

    ستم ظریفی تو یہ کہ ایک طرف بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے لیکن مال سمیٹنے کا آسان طریقہ جان کر عطیات کے نام پرکئی حکومتی اِداروں نے شہریوں کی جیبیں صاف کرنا شروع کردی ہیں اِداروں کے سربراہان اپنے ماتحتوں کوایسے احکامات صادر کرنے لگے ہیں کہ ایسے صاحبِ ثروت لوگوں سے راہ و رسم رکھیں جنھیں مختلف محکموں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے تاکہ بوقت ضرورت عطیات کے نام پر اُن سے بھاری رقوم وصول کی جا سکیں لیکن ظاہر ہے جو اِس کے باوجود عطیات کے نام پر بھاری رقوم دیتے ہیں کہ یہ پیسہ فلاح وبہبود پر تو خرچ ہونا نہیں بلکہ خُرد بُرد ہونا ہے تووہ عطیات کے نام پر پیسے دیکربعدمیں جی بھر کر استعمال بھی کرتے ہیں جس سے محکموں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے کچھ شعبے تو دھونس جماکرشرفا سے پیسے نکلواتے ہیں ظاہر ہے ایسی بدروایت کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

    ماضی میں جب رائے ضمیر الحق ڈی پی او گجرات تعینات تھے تو انھوں نے ہسپتال بنانے کے نام پر ضلع گجرات کے طول و عرض سے عطیات کی صورت میں کروڑوں روپیہ اکٹھا کیا لیکن ہسپتال جیسا منصوبہ آج بھی محض بنیادوں تک محدود ہے البتہ عطیات کا بڑا حصہ کاغذات میں خرچ ظاہر کر دیا گیا بعد میں ڈی پی او کے منصب پر براجمان ہونے والے آفیسران نے اِس خُرد بُرد کے خلاف شہریوں کے احتجاج سے تنگ آکر معمولی حصہ واپس بھی کیا ہسپتال کی آڑ میں ڈی پی او کے منصب پر براجمان نے گجرات میں گداگری کی ایسی واردات ڈالی جس کی ملکی تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔

    زلزلے کے آفٹر شاکس کی طرح ہنج پویس مقابلے کے آفٹر شاکس بھی ابھی ختم نہیں ہوئے بلکہ جاری ہیں شنیدکے مطابق ڈی پی او نے ضلع کے تمام ایس ایچ او ز کو کہہ رکھاہے کہ ہنج پولیس مقابلے میں بے تحاشہ اسلحہ ضائع کرنے پر آئی جی اور ڈی آئی جی خفا ہیں کہ سرکاری اسلحہ ہوائی فائرنگ میں کیوں ضائع کردیا اب اُنھیں اسی طرح راضی کیا جا سکتا ہے کہ بلیک مارکیٹ سے اسلحہ و گولیاں خرید کر مال خانے میں جمع کرادی جائیں یہ تبھی ممکن ہے کہ صاحبِ ثروت لوگوں سے عطیات اکٹھے کیے جائیں لہذا عطیات نہ دینے والوں کا تھانہ جات میں داخلہ بندکردیں تاکہ لوگ مجبوراََعطیات دیں اِس مقصد کے لیے ڈی ایس پیز کو ذمہ داریاں تفویض کررکھی ہیں صاحب بہادر کی ہدایت ہے کہ امن وامان قائم کرنے سے زیادہ عطیات وصول کرنے پر توجہ دیں اور خودبے مقصدکھلی کچہریوں کاسلسلہ شروع کررکھاہیں۔

    ہنج پولیس مقابلے کا سرکل کھاریا ں بنتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کام غلط ہی سہی مگر عطیات اکٹھے کرنے کی ذمہ داری بھی سرکل کھاریاں تک محدود رکھی جاتی لیکن ڈی پی او مستنصرعطا باجوہ نے یہ نیک کام جان کر پورے ضلع تک وسیع کردیاہے عطیات اکٹھے کرنے کے حکم کے جواب میں ایک ایس ایچ او نے خفگی کا اظہار بھی کیا کہ کروڑ ڈیڑھ کروڑ تو ایک تھانہ کھاریاں صدر ہی اکٹھا کر سکتا ہے کیونکہ وہاں رشوت یورواور ڈالر میں لی جاتی ہے مگر ڈی پی او کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے ڈی ایس پیز صاحبان نے ظاہر کی جانے والی خفگی کونظر انداز کردیا اور تھانہ انچارج صاحبان کو وقت ضائع کیے بغیر کام کرنے کی ہدایات دے رکھی ہیں ہدایات کی روشنی میں ایس ایچ اوز گلی، محلوں اور چوراہوں میں پھیل چکے ہیں بس گداگروں کی طرح جھولیاں نہیں پھیلائیں البتہ سوزوگداز کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں شہری تھانوں سے ایک لاکھ، قدرے بہتر تھانہ جات سے دولاکھ جبکہ جرائم کے حوالے سے معروف اور بڑے تھانوں سے تین سے پانچ لاکھ کے عطیات وصول کرنے کا ٹارگٹ ہے محتاط اندازے کے مطابق وصول کی جانے والی رقم کا تخمینہ کروڑ وں میں ہے مقصد ضائع کیا جانے والا اسلحہ خرید کر جمع کرانا ہے تاکہ آئی جی پنجاب اور ڈی آئی جی گوجرانوالہ جس ناقص کارکردگی پر ناخوش ہیں کو خوش کیا جا سکے اب معلوم نہیں گجرات پولیس سے آئی جی اور ڈی آئی جی خوش ہوتے ہیں یا نہیں بظاہر ڈی پی اوکی ریٹائرمنت کے بعد کی زندگی تواچھی گزرنے کا امکان ہے لیکن بھیک کی اِس نئی قسم پراہلِ گجرات حیران ضرور ہیں کاش ایسی گداگری روکنے پر بھی پنجاب حکومت توجہ دے تاکہ اعلیٰ عہدوں پر تعینات لوگ دائرہ کارسے تجاوزنہ کرسکیں۔

    عطیات کے لیے دھونس کاحربہ کسی طورلائقِ ستائش نہیں مگر جب اہلیت وصلاحیت نہ ہوتو ایسی ہی حماقتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر حکمت وتدبر کا مظاہرہ کیا جاتا تو ہنج واقعہ محض دوطرفہ فائرنگ تک محدود رہتا لیکن پولیس کے ضلعی سربراہ کی عدم توجہی سے یہ واقعہ پولیس مقابلہ بن گیا جسے بعدازاں سچ ثابت کرنے کے لیے پولیس نے کئی بے گناہ بھی ماردیے جن کی لاشیں تھانہ ڈنگہ اور لاہور تک پھینکناپڑیں حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ہر پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے ہنج پولیس مقابلے کے حوالے سے کاغذات میں جو اسلحہ و گولیاں استعمال ظاہر کی گئی ہیں موقع کا معائنہ کیاجائے تو زمین و آسمان کافرق صاف ظاہرہے پھربھی نہ جانے کیوں پولیس کی طرف سے سنائی جانے والی ناقص اور روایتی کہانی کوہی درست تصورکر لیا گیا؟

    تجاوزات کے خلاف پنجاب بھر میں زوردار مُہم جاری ہے اِس دوران پہلی بار غیرجانبداری سے کچھ کام ہوتا بھی نظر آنے لگا ہے لیکن گجرات میں انتظامیہ روایتی چیرہ دستیوں پر عمل پیرا ہے جو تجاوزات ختم کرنے کے زمرے میں ہرگز نہیں آتیں کاروباری افراد سے فرمائش کی جارہی ہے کہ جی ٹی روڈ کی تزئین و آرائش کرائیں وگرنہ اُن کے کاروبار بندکردیے جائیں گے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جو ایسانہیں کرتا اُن کی دکانیں واقعی سیل کردی جاتی ہیں واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ لوگوں سے تزئین وآرائش کے کام کراکرمیونسپل کارپوریشن سے بھاری رقوم نکلواکرہضم کی جارہی ہیں کیونکہ چیف آفیسر کے منصب پر ایک ناتجربہ کار جونیئر آفیرتعینات ہے اِس لیے بے خوفی سے لوٹ مار جاری ہے راقم نے اِس بابت ایک اعلیٰ انتظامی آفیسر سے دریافت کیا تو اُس نے اپنی مجبوری بتاکر بات ختم کردی کہ ہم تو حکامِ بالا کے احکامات کی پابندی پر مجبور ہیں صاحبانِ اقتدار سے پوچھنایہ ہے کہ گداگری کی یہ اقسام کیا لعنت میں شمار نہیں ہوتیں؟