ایران پر اسرائیل نے کافی محتاط حملہ کیا ہے تیل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے مگر یہ حملہ خطرے کی ایسی گھنٹی ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیل رہی ہے۔ یہ بلکل ویسا ہی ہے جیسے ایران نے بھی اسرائیل پر حملے کے دوران احتیاط پسندی سے کام لیا تھا۔
فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے بعد اسرائیل کی نظریں اب شام، لبنان اور عراق پر ہیں۔ اس لیے تینوں ممالک اُس کی جارحیت کاہدف ہیں، حالانکہ مذکورہ ممالک سے اُسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ اِن میں اتنی بھی سکت نہیں کہ حملوں کا جواب دینا تو درکنار صیہونی ریاست کی کسی کاروائی کے خلاف آوازہی بلند کر سکیں۔ وہ تو حملوں کا عملی طور پر ردِ عمل دینے کی بجائے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
اِس کمزوری کا اسرائیل کو بھی ادراک ہے اسی بنا پر نہ صرف بے دریغ ہمسایہ مسلم ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ یمن اور ایران تک حملے وسیع کردیے ہیں، جس سے خطرہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ خطے سے باہر ممالک کو لپیٹ میں لے سکتی ہے کیونکہ عالمی طاقتیں اپنے حامی ممالک کی حمایت کرتی ہیں اور ہنگامی حالات میں غیر جانبدار نہیں رہتیں اور اپنے مفادات کے لیے آدھمکتی ہیں۔ دنیا کثیر قطبی نظام کی طرف جارہی ہے اب صرف دفاعی طاقت ہی اہم نہیں بلکہ مضبوط معیشت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
فی الوقت عرب ممالک کو خوفزدہ رکھنے پر امریکہ اور اسرائیل متفق اور یکسو ہیں لیکن ایران اور اسرائیل کی اگر دوبدولڑائی ہوتی ہے تو کیا پھر بھی روس اور چین خاموش تماشائی ہی رہیں گے؟ اِس سوال کا جواب ہاں میں دینا غلط ہوگا کیونکہ وہ اسرائیل کے مقابلہ میں ایران کو پسپا ہونے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائیں گے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تویہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کو اپنا وحشیانہ کھیل کھیلنے کی آزادی دینے کے مترادف ہوگا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یوکرین جنگ کی مخالف اور امن پسندی کی دعویدار عالمی طاقتوں کا مشرقِ وسطیٰ کی ایسی ہی صورتحال میں متضاد موقف ہے اور وہ امن قائم کرنے سے زیادہ اسرائیل کو بالادست طاقت بنانے کی روش پر گامزن ہیں۔ اِس دوران کسی اصول وضابطے کو خاطر میں لانے کو بھی تیار نہیں بلکہ ویٹوپاور کی بدولت یواین او کو بے دست وپا کر رکھا ہے جس سے تقسیم ہوتی دنیا کسی بڑی جنگ کی طرف جا سکتی ہے۔ ایسا ہونا دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت برپا کرنے کے مترادف ہوگا اِس لیے کسی کا جواب محدود ہویا محتاط امن کا متبادل ہرگز نہیں۔
جمعہ 25 اکتوبر کو اسرائیل نے حملہ کیا اُس کے جنگی طیاروں اور ڈرونز نے ایک ہی رات میں ایران پر تین بار بمباری کی اور بیس سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا۔ عین اسی وقت شام اور عراق میں بھی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ ممکن ہے اسرائیل اِس طرح ہمسایہ ممالک کو یہ باور کرانا چاہتا ہوکہ وہ بیک وقت کئی محازوں پر لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ایران کا کہنا ہے کہ حملے سے بہت کم نقصان ہوا ہے البتہ جواب دینے کا حق محفوظ رکھنے کی بات کی ہے۔ یہ کافی نرم ردِ عمل ہے لیکن ماہرین ٹکراؤ بڑھنے کے امکان کو مکمل رَد نہیں کررہے۔
سات اکتوبر2023کو حماس حملے کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے وحشیانہ حملوں سے غزہ کا علاقہ ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ رہائشی عمارتوں کو نشانہ بناتے ہوئے کوشش کی ہے کہ اموات کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہو بمباری کو ایک برس سے زیادہ عرصہ ہوگیا لیکن ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تو اِس کوشش میں ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے بھیجی جانے والی علاقہ مکینوں تک خوراک اور طبعی امداد بھی نہ پہنچ پائے۔
ایسی سفاکیت کا مظاہرہ شاید ہی کسی جنگ میں ہوا ہو مگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسی عالمی طاقتیں روا رکھے ظلم وستم کو اسرائیل کا دفاعی حق قراردیتی ہیں۔ ظاہر ہے ایسا کہہ کر وہ ظلم و ستم کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن اب امن پسندوں کا ضمیر جاگ رہا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج اور مظاہروں سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومتوں کے مفادات سے بالاتر ہوکر عوام پر اسرائیل کی وحشت آشکار ہوچکی ہے اور وہ مظلوم و معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی پر نوحہ کناں ہیں جس سے اور کچھ ہونہ ہوظالم طاقتوں کی تنہائی میں اضافہ یقینی ہے۔
عام قیاس یہ تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں نشانہ بنانے کے باوجود ایران کسی ایسی کاروائی سے گریز کرے گا جس سے بڑی جنگ کا خدشہ حقیقت کا روپ دھارے۔ اِس قیاس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ نے خطے میں نئے اور تازہ دم فوجی دستے تعینات کر دیے تھے مگر یہ قیاس اُس وقت غلط ثابت ہوگیا جب ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر دوسو میزائل اور ڈرونز سے حملہ کر دیا جس کا اسرائیل نے جواب دینے کا اعلان کیاتھا لیکن پچیس اکتوبر کا حملہ محتاط جواب ہے۔
نہ صرف تیل کی تنصیبات کو نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا گیا بلکہ جوہری مراکز کو بھی نہیں چھیڑا گیا۔ اگر تیل تنصیبات اور جوہری مراکز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی تو شاید ایرانی قیادت مزید طاقت سے ایسے جواب پر مجبور ہوجاتی جس سے بڑے پیمانے پر انسانی اموات ہوتیں۔ حالیہ حملے سے اسرائیل نے بدلہ لینے کے ساتھ ایران پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی سے مرعوب ہونے والا نہیں بلکہ کسی بھی حریف کو اپنی پسند کے مطابق میدانِ جنگ کی طرف ہانک کر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسرائیل کے محتاط جواب کے متعلق دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس وقت ایران ایک باقاعدہ جوہری طاقت نہیں لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ چاہے جوہری دھماکے نہیں کیے البتہ اتنی صلاحیت ضرور حاصل کرلی ہے کہ کسی بھی وقت تجربات سے خود کو جوہری طاقت منوا سکتا ہے۔ شاید اسی لیے اسرائیل نے جارحانہ عزائم کا اظہار کرنے کے باوجود احتیاط پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لاکھ چین اور روس امن پسندی کی بات کریں مگر جب امریکی مفادات پر زک کا معاملا ہو تو وہ زیادہ دیر الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اور کسی بھی وقت مداخلت کرسکتے ہیں۔ دفاعی حلقے تو اب بھی ایسا امکان ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیلی حملوں نے ایران کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے اور ایران کی طرف سے جوہری صلاحیت کے اظہارکے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان سمیت اکثر مسلم ممالک نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی ہے اور جارحیت کو ایران کی خودمختاری، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے اسرائیل کو امن خطرے میں ڈالنے سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اِس دوران سعودی عرب نے بھی قیادت کے منصب کے تقاضے پورے کیے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے میں تاخیر نہیں کی۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ مسلم امہ متحد ہو کر او آئی سی کو فعال کرے اور اقوامِ متحدہ کو اُس کے فرائض یاد دلائے تاکہ اسرائیلی حملوں سے نہ صرف ایران، شام، عراق اور لبنان محفوظ رہیں بلکہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی پر مبنی کاروائیوں کا بھی خاتمہ ہوسکے۔