Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Pak Azerbaijan Taluqat

    Pak Azerbaijan Taluqat

    پاکستان کو معیشت کی بحالی کا مشکل مرحلہ درپیش ہے اِس لیے پیداواری شعبے کی استعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ایسی تجارتی منڈیاں تلاش کر رہا ہے جو نفع بخش ہوں۔ اِس حوالہ سے موجودہ حکومت نے ایک سالہ مدت کے دوران قابلِ قدر کام کیا ہے جس سے جزوی حد تک ہی سہی معاشی بحالی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ پاکستانی وزیرِ اعظم نے گزشتہ مارچ میں منصب سنبھالا جس کے بعد رواں ہفتے وہ دوسری بار آذرجائیجان گئے۔

    پہلے دورے کے جواب میں گزشتہ برس جولائی میں آذربائیجان کے صدر بھی پاکستان آئے۔ شہباز شریف کا حالیہ دورہ آزربائیجان دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک ایسا اہم سنگِ میل ثابت ہوسکتا ہے جس سے نہ صرف دونوں ملک مزید ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی بلکہ مشترکہ منصوبوں کو بھی فروغ ملے گا۔ رواں برس اپریل میں آذری صدر نے پاکستان آنا ہے تو معاہدوں پر عملی پیش رفت کا بھی آغاز ہوجائے گا کیونکہ دوطرفہ دوروں سے اعلیٰ قیادت قریب آتی ہے تو سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات کو فروغ ملتاہے۔

    وسطی ایشیا کا ملک جمہوریہ آزربائیجان رقبے کے لحاظ سے کوئی بہت بڑا ملک نہیں لیکن ہمسایہ ملک آرمینیا سے محدود وسائل کے باوجود نکورنوکاراباغ کے حصول کی جنگ جیت کر نئی تاریخ رقم کرچکا ہے۔ اِس جنگ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ آزربائیجان نے دفاعی صلاحتیوں کا لوہا منوایا۔ مزید قابلِ تذکرہ بات یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو برس کے دوران یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلم ملک کو فتح نصیب ہوئی۔ اِس جنگ میں ترکیہ اور پاکستان نے آذری بھائیوں کا بھرپور ساتھ دیا نہ صرف سفارتی حوالے سے حمایت کی بلکہ دفاعی ہتھیار بھی فراہم کیے جس سے عالمی سطح پر رائے عامہ بیدار ہوئی اور آرمینیا کو دندان شکن جواب ملا جس پر آذری حکومت اور عوام پاکستان اور ترکیہ کے احسان مند ہیں۔ پاکستان کے آذربائجان سے سفارتی تعلقات 9 جون 1992 کو قائم ہوئے جو مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ دونوں کا عالمی مسائل پر موقف ایک ہے۔ دونوں ہی مسلہ فلسطین کا حل دو ریاستی قرار دیتے ہیں۔ مذہبی، ثقافتی رشتوں سے باہم منسلک اگر پاکستان نکورنوکاراباخ پر آذربائیجان کی حمایت کرتا ہے تو آذربائیجان بھی مسلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہے یہ ہم آہنگی قابلِ فخر وستائش ہے۔

    یوں تو وسطی ایشیائی ریاستوں سے پاکستان کے سفارتی و تجارتی تعلقات کی تاریخ تین عشروں پر محیط ہے جو روس سے آزادی حاصل ہوتے ہی اُستوار ہوگئے تھے لیکن نکورنوکاراباغ پر آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین لڑی جانے والی جنگ سے پاکستان کا مثبت تشخص اُجاگر ہوا جس کے بعد پاکستان کے بارے میں جاننے کا تجسس تیزی سے پروان چڑھا۔ آذری عوام پاکستانیوں کو کاردش یعنی میرا بھائی کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ شہباز شریف کا وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ہے۔ اب جبکہ روس نے بھی 16ویں بین الاقوامی اقتصادی فورم میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے جو روسی فیڈریشن میں شامل تاتارستان کے دارالحکومت قازان میں منعقد ہوگی تو پاکستان کو مزید تجارتی، سماجی اور ثقافتی تعلقات بڑھانے کے مواقع ملیں گے۔

    وزیرِ اعظم کا دوروزہ دورہ باکو کے دوران پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ تیل و گیس کے معاہدے ہوئے پاکستانی معیشت کے لیے آکسیجن کا پہلو یہ ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے اور پاکستانی باسمتی چاول پر درآمدی محصولات ختم کردیے ہیں۔ اِس طرح وسطی ایشیائی ریاستوں میں چاول کی منڈی پر بھارتی تسلط کا خاتمہ ہوگا اور دونوں ممالک کے قریب آنے سے دوطرفہ تجارت کوفروغ ملے گا۔ رواں برس اپریل میں جب جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف پاکستان آئیں گے تو سرمایہ کاری معاہدوں پرمزید پیش رفت ہوگی جس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری کا وعدہ صرف وعدہ نہیں رہے گا بلکہ ایفابھی ہوگا۔ پاک آذربائیجان بزنس فورم سے خطاب میں وزیرِ اعظم نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی کا مفصل زکر کیا اور شرکا کے تحفظات و خدشات دور کرنے کی یقین دہانی سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم ثابت ہونے کا امکان ہے۔

    مسلم ممالک میں دفاعی تعاون ناگزیر ہے۔ کاراباخ جنگ میں اگر پاکستان اور ترکیہ آذری بھائیوں کو بروقت ہتھیار فراہم نہ کرتے تو 44 روزہ کاراباخ جنگ کے نتائج شاید مختلف ہوتے۔ مقام شکریہ ہے کہ پاک آذربائیجان دفاعی تعاون فروغ پذیر ہے اور دونوں ممالک میں مشترکہ دفاعی پیداوار کے حوالے سے اتفاق ہے وزیرِ اعظم کا یادگار فتح پر جانا اور آذربائیجان کے قومی ہیروز کی قربانیوں کو خراجِ تحسین کرنا مستقبل میں اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ہر قوم اپنے قومی ہیروز کے حوالے سے جذباتی ہوتی ہے۔

    وسطی ایشیائی ممالک کے لیے پاکستان بہت اہم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کثیر ملکی راہداریوں اور توانائی کے منصوبوں میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں تاکہ زمینی راستوں سے منسلک ہو کر باہمی مفادات کے تحفظ اور علاقائی امن وترقی کے لیے کردار ادا کرسکیں۔ باعثِ مسرت بات یہ ہے کہ پاکستان اپنے فرائض سے آگاہ اور اِس حوالے سے حالات سازگار بنانے کے لیے کوشاں ہے اور علاقائی تجارت اور دفاعی اتحا د کی مخلصانہ سعی میں مصروف ہے۔ ایسے حالات میں پاک آذربائیجان خوشگوار اور قریبی تعلقات اِس بنا پر بھی نہایت اہم ہیں کہ دونوں کا افغانستان میں امن کے لیے نقطہ نظر ایک ہے۔ وسطی ایشیا ہو یا قفقاز کا خطہ، آبادی کے حوالہ سے آذربائجان ایک بڑا ملک ہے مزید یہ کہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے جمہوریہ آذربائیجان کی دفاعی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اِس لیے دفاعی اور تجارتی تعلقات کی اہمیت بہت زیادہ ہے تیل و گیس کی دولت سے مالامال یہ ملک پاکستان کو سستی توانائی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے جبکہ آزربائیجان کی دفاعی طاقت کو مضبوط ترکرنے میں پاکستان اہم کردار اداکر سکتا ہے۔

    آذربائیجان سے 2023 میں پاکستان نے ایل این جی کا معاہدہ کیا۔ وزیرِ اعظم کے حالیہ دورے میں بھی اِس حوالے سے ایک ترمیمی معاہدے پر دستخط ہوئے جبکہ دونوں ممالک کی ریاستی سطح کی تیل کمپنیوں کے مابین بھی خرید و فروخت کے سمجھوتے ہوئے جس سے پاکستان کو درپیش توانائی کے مسائل حل ہوں گے اور دونوں ممالک کی عوام کو فائدہ ملے گا۔ دونوں ممالک کے مابین گزشتہ برس دسمبر میں ایک ارب ساٹھ کروڑ کا بڑا دفاعی معاہدہ بھی طے پایا جس کے تحت آذربائیجان کو پاکستان تین عدد جے ایف 17سی بلاک لڑاکا طیارے دے گا۔ دیگر مختلف قسم کا جنگی سامان فراہم کرنے کے ساتھ مشترکہ تربیتی مشقیں بھی اِس معاہدے کا حصہ ہیں باعثِ اطمنان امریہ ہے کہ حکومتی سطح کے ساتھ عوامی سطح پر بھی تعلقات پُرجوش اور دوستانہ ہیں جس کے تناظر میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پاک آذربائیجان تعلقات مستقبل میں مزید فروغ پائیں گے کیونکہ دونوں طرف اعتماد کی فضاہے۔ پاک اُزبک تعلقات کاتذکرہ آئندہ سطور میں۔