Saturday, 22 February 2025
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Tafteesh Ke Baghair Ujlat Mein Faisle

    Tafteesh Ke Baghair Ujlat Mein Faisle

    علم کے فروغ میں کتابوں کااہم کردار ہے مگر ایک علم بھی زمانہ دیتاہے جسے تجربہ کہتے ہیں کتابوں میں بھی مصنفین نے اپنے تجربات کورقم کررکھاہوتا ہے لیکن جو ٹھوکر کھاکر یا نقصان اُٹھا کر تجربہ یاعلم ملتا ہے اُس کا نعم البدل کتابی علم نہیں ہوسکتا ہرفرد کو مکمل اور بے عیب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کوئی بھی بشری خامیوں سے پاک نہیں لیکن کتابی علم اور عملی زندگی کے تلخ وشیریں تجربات سے سوچنے و سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتاہے ڈی پی اومستنصرعطا باجوہ بظاہر ایک صاحبِ علم ہیں میری معلومات کے مطابق وہ شایدایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں لیکن علاج و معالجہ سے رغبت نہ رکھنے اور کسی بااختیارعہدے کی طلب وہوس اُنھیں محکمہ پولیس کی طرف لے آئی ڈاکٹری سندصرف دکھی انسانیت کی خدمت تک محدودرہتی ہے شایداسی لیے دل میں جگہ نہ بناسکی لہذا پولیس انسپکٹرکے امتحان کی تیاری کرنے لگے تاکہ باختیار عہدے کی طلب پوری ہو سکے پولیس عہدے پر فائز شخص کو رُعب و دبدبہ جھاڑنے کے اَن گنت مواقع ملتے ہیں جبکہ ایک ڈاکٹر تو صبح و شام مریض دیکھتا ہے جن میں امیروغریب دونوں شامل ہوتے ہیں ڈاکٹری کی سند شائستگی، اخلاق اور دردمندی کاتقاضاتو کرتی ہے لیکن اِس میں رُعب ودبدبے کا مواقعہ شازہی ملتاہے جب مستنصر عطاباجوہ کی درشت طبعیت اورغصیلا لب ولہجہ دیکھتا ہوں نیز ماتحتوں کی تذلیل ہوتی سنتاہوں تو مجھے کوئی حیرانگی اِس لیے نہیں ہوتی کہ جوشخص بطورڈاکٹر دکھی انسانیت کی خدمت کے دستیاب مواقع ٹھکراکر پولیس جیسے شعبے میں آیا ہو وہ رُعب ہی جھاڑسکتاہے ایم بی بی ایس کی ڈگری کو شائستگی، اخلاق اور دردمندی کے تقاضوں کی بناپرہی تو طاقِ نسیاں میں رکھاگیا اور مقابلے کاسخت امتحان دے کر پولیس انسپکٹر کا عہدہ لیاتاکہ تذلیل کے لا محدودمواقع سے جی بھرکرمستعفیدہو اجا سکے مگر وہ تفتیش کیے بغیرہی عجلت میں ایسے فیصلے کررہے ہیں جنھیں کم ازکم الفاظ میں بھی انصاف قتل کہناہی بہترہے اب تو شایدماتحت بھی حیران و پریشان ہیں اورعوام میں بیزار، اہل وباصلاحیت ماتحت تذلیل کے ڈرسے دورجبکہ بدعنوان اور اپنے ضلعی سربراہ کی طرح بدتمیز اور نااہل سفارشی تعیناتیاں لے رہے ہیں۔

    امن و امان کی بحالی پولیس کا فرض ہے اِس فرض کی ادائیگی کے لیے عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والے ٹیکس کا تیاپانچاکرتے ہوئے بھاری تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں خیرملک میں مہنگائی کے پیشِ نظراب کوئی شخص بغیر تنخواہ کے رضاکارانہ ملازمت کے فرائض ادا نہیں کر سکتا لیکن اگر حکومت تعیناتیاں کرتے وقت اہلیت وصلاحیت اور تجربہ بھی پیشِ نظر رکھے توکسی حدتک بہتر نتائج ممکن ہیں حکمران جماعت ن لیگ کے سابق ایم پی اے چوہدری یاسین سوہل ایک نیک نام آدمی ہیں یہ بے لوث سماجی خدمت پر یقین رکھتے ہیں ستائش وتحسین سے بے نیاز عوامی بھلائی اُن کا شیوہ ہے اسی لیے ایک سے زائد بار بھاری اکثریت سے منتخب ہوچکے گزشتہ برس آٹھ فروری کے انتخابات میں البتہ وہ جیتنے کی بجائے ناکام رہے پھر بھی اِتنے ووٹ حاصل کرلیے کہ لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں نمایاں رہے لیکن مستنصر عطا باجوہ کی تعیناتی میں اُن کی سفارش کا اہم کردار ہے جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ غلطیاں ایسی سرزد ہوجاتی ہیں جن کاکوئی کفارہ نہیں ہوسکتا کاش وہ نااہل وناتجربہ کارکی سفارش سے محتاط رہتے لیکن شاید رشتہ داری کی مجبوری آڑے آگئی ہوگی مستنصر عطا باجوہ اگر چوہدری یاسین سوہل کے ہم زُلف نہ ہوتے تو ہرگز ڈی پی او کی صورت میں گجرات پر عذاب نہ آتا اوراُن کی تذیلی ہمیشہ کی طرح دفاتر میں صرف پولیس اہلکاروں تک محدود رہتی اُن کی مزموم خامی یہ ہے کہ بطورڈی پی اوسائلین سے بدتمیزی کرتے اور شرفا سے ماتحتوں کی طرح پیش آتے ہیں ایسی ہی حرکات کی وجہ سے اُن کا دفتر مسائل حل کرنے کی جگہ کم اور اکھاڑہ زیادہ بن چکا ہے اِس کے ایک بڑے ذمہ دار چوہدری یاسین سوہل بھی ہیں اگر وہ سفارش نہ کرتے تو شاید گجرات ایک کچرے سے محفوظ رہتا۔

    زیادہ باعثِ تعجب پہلویہ ہے کہ گجرات پولیس میں ہونے والی اکثر تعیناتیوں میں اہلیت و صلاحیت کومدِ نظرنہیں رکھاجاتا جسے ایک دن قبل سب سے زیادہ اسلحہ مقدمات درج کرنے پر ڈی پی او تعریفی سند اور انعامی رقم تھما رہے ہوتے ہیں اگلے ہی دن دفتر بُلاکر سرِعام تذلیل کرتے تبادلے کا حکم سناتے دیتے ہیں اِس دوران اگر ڈی ایس پی عجلت میں کیے فیصلے سے اختلاف کرے تووہ بھی بے عزتی میں حصہ دار بن جاتے ہیں ایسارویہ اور فیصلہ تجربے کی کمی ظاہر کرتا ہے ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ جب کسی کی تذلیل کرنامقصود ہویا رُعب جھاڑنا ہوتوا یک نفسیاتی مریض قسم کے انسپکٹر عمران سوہی نامی شخص کوڈی پی اونے کیو ں پاس بٹھا رکھاہوتا ہے؟ شایداُس کا کام ایسے مواقع پر صرف تذلیل کو سراہنااور واہ واہ کرنا ہوتا ہے وگرنہ نفسیاتی مریض عمران سوہی کو پہلو میں بٹھانے کی کوئی اور وجہ سمجھ نہیں آتی دونوں میں ایک مشترکہ وصف فرائضِ منصبی ادا کرنے کی بجائے ہر ملنے آنے والے کو اپنی ایمانداری کی من گھڑت داستانیں سناناہے سائلین کا کام ہو یا نہ ہو یہ ضرورباورکرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جاکرسائل جس کسی سے ملے اُسے ڈی پی او اور عمران سوہی کی ایمانداری اور انصاف پسندی کایقین ضرور دلائے۔

    بھلے گجرات پولیس کسی کا جائز مقدمہ درج نہ کرے لیکن آجکل اتنی چوکس ہے کہ ایک کال پر ہی شیمپو کی بوتل چرانے کا مقدمہ نہ صرف درج کر لیتی ہے بلکہ مدعی کی نشاندہی پر ضعیف العمر خاتون کو گرفتاربھی کر لیتی ہے حالانکہ قتل، ڈکیتی، راہزنی، چوری، ہیراپھیری اورزمینوں پر قبضے جیسے سینکڑوں ایسے مقدمات ہیں جن کے ملزمان برسوں سے پولیس کی دسترس سے باہرہیں چوروں کی عدم گرفتاری پر گجرات کے تاجرچاہے شہری تھانہ کے باہر سراپا احتجاج ہوں توبھی کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا شاید وجہ یہ کہ جب سربراہ اہلیت و صلاحیت کے بغیر سفارش پر تعینات ہے تو ماتحت بھی عملی کارکردگی کی بجائے کاغذات میں سب اچھا ہے کی رپورٹس سے بہلانے کی پالیسی پر عمل پیراہیں مستنصر عطا باجوہ کی آمد سے تھانہ جات کی کارکردگی سوشل میڈیا تک محدود ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ گجرات جرائم کی شرح میں آبادی کے لحاظ سے کئی بڑے اضلاح کوبھی مات دینے لگاہے۔

    گزشتہ ہی ہفتے ایک اخبار فروش کے صاحزادے گھر سے نکلے اور ناسازی طبع کی وجہ سے شام تک واپس نہ آسکے تشویش کا شکاراہلِ خانہ نے گمشدگی کے متعلق پویس کومطلع کیا توتھانہ اے ڈویژن کے ایس ایچ او عظمت سعیدتارڑنے کسی قسم کی مددکرنے کی بجائے روایتی حربوں سے اہلِ خانہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی دوسرے دن طبعیت زرا بہتر ہونے پر اخبارفروش کا صاحبزادہ خودہی گھر آگیا تو پولیس کے سربراہ اوردیگرماتحتوں نے خصوصی فرمائش پر اپنی خوب تحسین کرائی جس پرمیں نے ایک بہت اچھے لکھاری اور وضع دار شخصیت سے دریافت کیا کہ اِس بازیابی میں پولیس کا کوئی کردار ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحسین سے بس صاحبان کو خوش کرنا ہی مقصود ہے تحسین کاصلہ عظمت سعید تارڑ کو یہ ملا ہے کہ اے ڈویژن سے بڑاتھانہ شاہین دے دیاگیا ہے۔

    ہرطرف خرابی ہی خرابی ہے تفتیش کے طریقے وسلیقے تک فراموش کر دیے گئے ہیں انصاف کبھی ایک فریق کو سُن کر نہیں کیا جا سکتا مگر گجرات میں رنجیت سنگھ جیسا انصاف ہورہا ہے جس کے گلے میں رسہ فٹ آجائے ماتحت یاکمزورہوتو فوری قربانی دے دی جاتی ہے رواں ہفتے ہی گجرات کی معروف تعلیمی درسگاہ زمیندارکالج میں توتکرار کا واقعہ پیش آیا جس پر کچھ معلمین اور طاب علم اشتعال میں آگئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈی پی او غیرجانبداری سے دونوں فریقین کو سُنتے اور پھرحقائق کی روشنی میں فیصلہ سُناتے لیکن ایک طرف ماتحت پولیس اہلکار تھا جبکہ دوسری طرف معلمین اور طلبا کی کثیر تعداد تھی اِس لیے سُننے اور انصاف کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ماتحت پر مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا اور فوری طورپرہی ملازمت سے بھی برخواست کر دیا گیامیرے گجرات میں ایسا رنجیت سنگھ جیسا انصاف ہو رہا ہے سچ یہ ہے کہ تفتیش کے بغیر عجلت میں فیصلے سنانے سے پولیس کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا البتہ بدنامی کے نئے پہاڑ ضروربن رہے ہیں۔