Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Trump Se Pti Ki Tawaquat

    Trump Se Pti Ki Tawaquat

    ٹرمپ کے صدر بننے سے تحریکِ انصاف کا امریکہ مخالف بیانیہ دم توڑ چکا ہے، حالانکہ جوبائیڈن دور میں عمران خان کا موقف تھا کہ پی ڈی ایم کی پیش کی گئی عدمِ اعتماد کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی کا ذمہ دار امریکہ ہے مگر اب تحریکِ انصاف نے ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں اور کارکنوں کی اکثریت سے لیکر اکثر رہنما تک کہتے نظر آتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی مشکلات ٹرمپ کی مداخلت سے کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہیں۔

    اِس بیانیے کو ٹرمپ کی قریبی شخصیات کی طرف سے عمران خان کے حق میں سوشل میڈیا پر بیان بازی سے بھی تقویت ملی اور بظاہر ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید ٹرمپ حکومتِ پاکستان سے عمران خان کی رہائی، نئے انتخابات کرانے اور اقتدار پی ٹی آئی کو دینے کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔ مقامِ افسوس یہ کہ حکومتی حلقوں میں بھی کچھ سراسمیگی بھی نظر آئی حالانکہ میرا شروع سے موقف رہا ہے کہ خواہ کتنی ہی بڑی سے بڑی عالمی طاقت ہو وہ اب سرِ عام کسی ملک میں تبدیلی لاکر عوامی نفرت مول نہیں لے سکتی۔

    ایران سے لیکر افغانستان تک امریکہ کو تو ایسے اقدامات کے نتائج کا بخوبی تجربہ ہو چکا ہے لہذا میرے خیال میں پی ٹی آئی کی ٹرمپ سے وابستہ توقعات کا پورا ہونا ممکن نہیں کیونکہ تعلقات میں کسی حد تک سردمہری کے باوجود پاکستان جیسے جوہری ملک کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا چہ جائے کہ عوامی رائے کے برعکس تبدیلی لانے کی حماقت کردی جائے، امریکہ چاہے گا کہ بو وقتِ ضرورت کام لینے کے لیے کسی ایک پر انحصار کی بجائے تمام دستیاب مواقع سے فائدہ اُٹھائے۔

    ہر ملک میں تبدیلی اقتدار کے اپنے قوانین اور طریقہ کار ہوتا ہے قوانین اور طریقہ کار روند کر لائی جانے والی تبدیلی سے عوامی غیض و غضب کی راہ ہموار ہوتی ہے اسی لیے اپنے حمایتی سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے کی درپردہ کوششوں کے باوجود قوانین سے بالاتر تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا مگر عمران خان نے کمال مہارت سے عوامی حلقوں کو باور کرا دیا کہ اُن کی حکومت کا خاتمہ اور اقتدار سے محرومی دراصل امریکی مخالفت کا شاخسانہ ہے۔ دلیل کے طور پر جلسوں میں ایک عدد سائفر بھی لہراتے رہے لیکن اب کوئی شائبہ نہیں رہا کہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی عدمِ اعتماد کی مخالفت کرنے کی بجائے اِدارے غیر جانبدار رہے۔

    دراصل عمران خان نے بطوروزیرِ اعظم کئی ایسی فاش غلطیاں کیں جن کی وجہ سے اُن کی ذات ناقابلِ اعتبار ہوئی اسی بنا پر مختلف اِداروں کے سربراہ حمایت سے دستکش ہو گئے لہذا کیونکر کوئی ملک ایسے شخص کو دوبارہ اقتدار میں لانے کاغیر حقیقی مطالبہ کر سکتا ہے جب تبدیلی کے قوانین اور طریقہ کارمیں ایسی کوئی گنجائش نہ ہو نیز اِداروں میں اُس کے متعلق نفرت موجود ہو؟

    وزیرِ اعظم بننے کے لیے ممبر قومی اسمبلی ہونا ضروری ہے لیکن اِس وقت عمران خان ممبر قومی اسمبلی نہیں اگر وقتی طور پر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ امریکہ ایسا کوئی مطالبہ کر سکتا ہے تو جب ایک شخص ممبر قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ سزا یافتہ ہے تو جیل میں بند ایک شخص کی سزا ختم کرنے اور وزیرِ اعظم کا منصب سونپنے کا مشکل مطالبہ کوئی ہوش مند کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ملکی قوانین اور طریقہ کار ایسی کسی تبدیلی کی نفی کرتے ہیں تو پھر کیوں ایسا مطالبہ کیا جائے گا جس سے نہ صرف تعاون کی موجود ہ سطح متاثر ہو بلکہ دونوں ممالک میں خلیج کو بڑھاوا ملے۔

    حکومت اور اِدارے تو پھر بھی کسی حد تک امریکی مفاد میں تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا ایک مظاہرہ تو افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے ملزم کی حوالگی سے ہو چکا مگر جیل میں بند بانی چئیرمین اور اِداروں کی معتوب جماعت ایسا کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیں کہ اقتدار میں آتے ہی وہ اِس سے زیادہ تابعداری کریں گے تو یہ اِس بناپر غیر ممکن اور غیر حقیقی لگتا ہے کہ عمران خان یا اُن کی جماعت پی ٹی آئی جس حد تک امریکہ کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کر چکی ہے۔ اِس تناظر میں امریکہ اُن پر اعتماد کر ہی نہیں سکتا اِن حالات میں یہی بہتر ہے کہ حکومت اور مقتدرہ سے بنا کر رکھے اور دہشت گردی میں تعاون حاصل کرے مطلوب دہشت گرد کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی واقعہ پر ٹرمپ کا اظہارِ تشکر بہت کچھ سمجھا دیتا ہے اگر بندہ حماقت کاگھوڑا سرپٹ نہ دوڑا رہا ہو تو۔

    اقتدار کی تبدیلی کے باوجود دہشت گردی کے حوالہ سے امریکی نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنے کے لیے وہ افغانستان میں اپنا چھوڑا گیا اسلحہ واپس لینا چاہتا ہے جس کا ٹرمپ کی طرف سے ایک سے زائد بار اظہار ہوچکا جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اُسے جس دہشت گردی کی شدید لہر کا آجکل سامنا ہے اُس کی وجہ بھی امریکہ کا وہی اسلحہ ہے جو انخلا کے وقت امریکی فوج چھوڑ گئی جو اب دہشت گرد گروہوں کے زیرِ استعمال میں ہے جسے امریکہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ ہم آہنگی دونوں ممالک میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے لیے بہت اہم اور تعاون کی راہ ہموار کرتی ہے لہذا دوطرفہ تعاون میں اضافہ موجودہ حکومت اور مقتدرہ سے ہی ممکن ہے عمران خان اور مقتدرہ میں دوریوں کی بناپر اگر عمران خان اقتدار میں آبھی جائیں تو مقتدرہ کا تعاون شاید ہی حاصل کر سکیں جس کا ٹرمپ انتظامیہ کو بخوبی ادراک ہوگا اِن حالات میں ٹرمپ سے پی ٹی آئی کی وابستہ توقعات غیر حقیقی معلوم ہوتی ہیں۔

    چین و امریکہ مسابقت عروج پر ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجارتی سامان پر محصولات بڑھانے کی روش پر گامزن ہیں۔ چین جس تیزی سے اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے وہ ساری دنیا کو بخوبی معلوم ہے تو کیسے ممکن ہے کہ امریکہ ایسی تیاریوں سے لاعلم ہو بلکہ موجودہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ چین پر نظر رکھنے کے لیے افغان ائربیس بگرام کا طالبان سے کنٹرول واپس لیا جائے۔

    خیر ایسی کسی کوشش میں تو شاید پاکستان ساتھ نہ دے کیونکہ پاک چین شراکت داری اب تمام شعبوں تک وسعت اختیار کر چکی ہے علاوہ ازیں بھارت دشمنی دونوں ممالک میں ایسی قدر مشترک ہے جس کی بنا پر پاک چین دوطرفہ تعاون فروغ پذیرہے اِس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ پاکستان کسی چین مخالف سرگرمی کا حصہ بنے مگر اِس کے باوجود امریکہ نہیں چاہے گا کہ امریکہ وچین میں براہ راست ٹکراؤ کی نوبت آئے۔ ایسی صورتحال اگر پیدا ہوتی ہے تو پاکستان ہی وہ واحد ملک ہوسکتا ہے جو دونوں میں سلسلہ جنبانی کی بساط بچھانے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

    مذکورہ حالات کے تناظر میں اگر عمران خان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ میں کوئی ہمدردی کی رمق ہے بھی تو طویل مدتی مقاصد کو محض ایک شخص کے لیے تعلقات خراب کرنا پسند نہیں کرے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی سینٹر یا کسی اہم سیاسی شخصیت سے عطیات کے عوض حمایت میں بیان حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ امریکی سیاست میں عطیات کو معیوب تصور نہیں کیا جاتا ریاستوں کے مابین تعلقات مفاد کے تابع ہوتے ہیں جوکسی شخصیت پر قربان نہیں کیے جا سکتے یہ سمجھنے کے لیے یوکرینی صدر ویلنسکی کی اوول آفس میں عزت افرائی عمدہ مثال ہے۔