ٹرمپ ٹیرف نے دنیا کی معیت و تجارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اِس کے اثرات مستقبل میں بھی طویل عرصے تک محسوس ہوتے رہیں گے خود امریکی معاشرہ بھی ٹیرف کے حوالے سے تقسیم ہے کیونکہ معیاری اور سستے غیر ملکی سامان کی دستیابی اب ناممکن ہوجائے گی جبکہ عالمگیری اثرات کی بات کی جائے تو کئی ممالک کی معیشتیں بُری طرح متاثر ہو سکتی ہیں لیکن اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے ٹرمپ اپنے طرزِعمل پر نظر ثانی کرلیں گے تودرست نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی ہلکی سی رمق تک نظر نہیں آتی۔ خیر کچھ ممالک جوابی ٹیرف لگا رہے ہیں تو کچھ ممالک جو امریکی دباؤ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھے وہ تبدیل شدہ حالات کے مطابق حکمتِ عملی بنانے میں مصروف ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے تاکہ اپنی معیشت و تجارت کو کسی بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔
امریکی صدر کی جانب سے ایک سو سے زائد ممالک کی درآمدات پر بھاری محصول عائد کیا جانا دنیا کے لیے ایک مشکل چیلنج ضرور ہے لیکن یہ ایساچیلنج نہیں جو حل نہ ہو سکے۔ بہتر جواب یہ ہے کہ متبادل کی تلاش پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ پچاس ریاستوں پر مشتمل اور 34 کروڑ نفوس کا مسکن ہونے کی وجہ سے خوشحال امریکہ دنیا بھر کے لیے ایک پُرکشش ملک ہے۔ ہجرت کی بڑی وجہ بھی یہی عوامل ہیں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال بارہ لاکھ کے قریب غیرملکی یہاں آکر آباد ہوئے۔ ملکی کرنسی ڈالرہے عالمی تجارت بھی ڈالر میں ہوتی ہے لیکن اب امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کے بغیر عالمی تجارت کا خیال تقویت تو حاصل کررہا ہے مگر آج بھی عالمی تجارت میں ڈالر کا حصہ تہائی کے قریب ہے۔
امریکہ ایک بڑی دفاعی طاقت ہے نیٹو جیسی تنظیم کی قیادت اُسے مغربی ممالک کا سرپرست ثابت کرتی ہے لیکن دنیا میں ہر تنازع کا حصہ بننے کی وجہ سے گزشتہ دوعشروں سے اب اُس کی معیشت زوال کا شکار ہے جس کا حل ٹرمپ نے درآمدات پر بھاری محصولات عائد کرنے کی صورت میں تلاش کیا ہے تاکہ مقامی مصنوعات کی حوصلہ افزائی ہونے کے ساتھ ملک کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہو مگر ٹرمپ فیصلے سے اضطراب کا شکار دنیا امریکہ سے نہ صرف دور ہو سکتی ہے بلکہ امریکہ میں مہنگائی بھی بڑھے گی جو امریکی معاشرے میں انتشار و افراتفری کا موجب ہوسکتی ہے۔ اِس تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ ٹرمپ ٹیرف امریکیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔
پاکستانی مال کی امریکہ ایک ایسی بڑی اور پُرکشش منڈی میں شمار ہوتا ہے جس سے تجارت کا توازن ہمیشہ پاکستان کے حق میں رہتا ہے۔ مالی سال 2023 میں پاکستان سے امریکہ کو 5.44 بلین ڈالر کی برآمدات ہوئیں جبکہ امریکہ سے درآمدات کی مالیت اِس کے نصف سے بھی کم رہی۔ گزشتہ سات عشروں سے پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کا بڑا حصہ امریکہ سے پورا کرتا ہے۔ تجارتی و دفاعی مفادات کی بنا پر ہی پاکستان نے ہمیشہ امریکی احکامات کی بجا آوری کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بھی رہا مگر پاکستان سمیت دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک پر بھاری محصولات عائد کرکے ٹرمپ نے دوستانہ تعلقات کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
بلاشبہ ٹیرف سے امریکی مفادات بڑی حد تک متاثر ہوں گے 29 فیصد ٹیرف عائد ہونے سے امریکہ کو پاکستانی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہونا یقینی ہے لیکن اب جبکہ پاکستان دفاعی حوالے سے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور امریکہ کے علاوہ چین، ترکیہ سمیت کچھ دیگر ممالک سے دفاعی ضروریات پوری کرنے لگا ہے جس سے امریکی محتاجی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اِن حالات میں حالیہ ٹیرف امریکہ کو پاکستان کے لیے غیر اہم کردے گا اور واشنگٹن سے اسلام آباد بتدریج دور ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے امریکی ٹیرف کے جواب میں کوئی جزباتی فیصلہ نہیں کیا بلکہ ٹھہراؤ اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کو احساس ہے کہ کوئی بھی جذباتی فیصلہ دونوں ممالک کے زوال پذیر تعلقات کو زیادہ تیزی سے ناہموار کر سکتا ہے اسی لیے ٹیرف کو چیلنج کے طور پر دیکھنے کے باوجود اپنی سب سے بڑی منڈی کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مزید گہرا کرنے کی راہیں تلاش کرنے کی جستجو میں ہے۔ اہم تزویراتی اور تجارتی شراکت دار کے وار سے محفوظ رہنے کے لیے ایک جامع جوابی منصوبے کی تیاری پرکام جاری ہے۔ اِس حوالے سے ایک ایسے ورکنگ گروپ کی تیاری کی شنید ہے جس میں سیکرٹری تجارت، ماہرینِ تعلیم سمیت ممتاز کاروباری رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ ٹیرف جیسے چیلنج کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کیے جائیں اور طویل مدتی شراکت داری کو برقرار رکھنے کا راستہ تلاش کیا جائے مگر اربابِ اختیار کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ٹرمپ نے تو قریب ترین اتحادی پورپی ممالک کو بھی ٹیرف عائد کرتے ہوئے نہیں بخشا۔ جنوبی ایشیا میں بھارت جو امریکی مفادات کی نگہبانی کا دعویدار ہے اُس پر بھی ٹیرف عائد کردیا ہے تو پاکستان سے نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا واضح اور آبرومندانہ منصوبہ بندی پر کام شروع کر دینا چاہیے ہر قسم کی خوش فہمی سے نکل کر متبادل کی تلاش پر توجہ دیناہی دانشمندی ہے۔
پاکستان اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کی برآمدات کے حوالے سے امریکہ پر زیادہ انحصار ہے جس کے لیے حالیہ ٹیرف کسی آزمائش سے کم نہیں مگر یہ صنعت گزشتہ کئی برس سے زبوں حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ شاید اِسی لیے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزب نے زیادہ پریشانی کا اظہار کرنے کی بجائے توقع ظاہر کی ہے کہ ٹیرف جیسے چیلنج کے باوجود دونوں ممالک کے لیے معاشی بہتری کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں مگر وزیرِ خزانہ کے فرمودات کو مکمل طور پر حقائق پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ٹرمپ ٹیرف ایسا دھکا ہے جو امریکہ سے دوست ممالک کو دور کر سکتا ہے۔
یہ موقع ہے کہ پاکستان اپنی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لے اور ایک جامع حکمتِ عملی بنا کر ملکی معیشت و تجارت کو وسعت دے۔ امریکہ ناگزیر نہیں دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو امریکہ سے شدید اختلافات کے باوجود ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان بھی ایک باوقار اور آزاد وخود مختار ملک کی حثیت سے قومی مفاد کا تحفظ کرے اگر ٹرمپ ٹیرف کا جواب نہیں دے سکتے تو ایک خود دار قوم کاراستہ اختیار کرنا تو مشکل نہیں۔