Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Ukraine Tanaza Par Madaniat Havi

    Ukraine Tanaza Par Madaniat Havi

    صدر ٹرمپ کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر یوکرینی صدر کو جس طرح زرائع ابلاغ کی موجودگی میں آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے یہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کیونکہ یوکرین کو آج جن مصائب کا سامنا ہے اِس میں امریکی مقتدرہ اور دفاعی تنظیم نیٹو کا اہم کردار ہے جنھوں نے روس سے طے شدہ معاہدوں سے انحراف کیا اور مشرقی یورپ تک نہ صرف نیٹو کی رُکنیت وسیع کی بلکہ فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ جدید ہتھیار بھی نصب کردیے جس پر روس نے احتجاج کیا اور معاہدوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن جواب میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا اور یوکرین کو تھپکی سے باور کرایا گیا کہ یہ دبوچنے کا اچھا موقع ہے اگر وہ روس سے ٹکرا جائے تو نیٹو میں شامل تمام ممالک ساتھ دیں گے۔

    قبل ازیں مبہم یقین دہانیوں پر یوکرین نے غیر جوہری ملک بننے کا احمقانہ فیصلہ کیا تھا یاد رہے کہ روس کے تہائی جوہری ہتھیار یوکرین کے پاس تھے جوہری صلاحیت سے محرومی کے بعد جب یوکرین یورپی یونین میں شامل ہونے اور نیٹو رُکنیت حاصل کرنے کی کوششوں سے باز نہ آیا تو روس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اُس نے براہ راست حملہ کر دیا مگر تھپکی دینے والے کسی ملک نے ہتھیار دینے کے سوا یوکرین کی فوجی مدد نہ کی۔ اب جبکہ یوکرین کے کئی اہم علاقوں پر روس کا قبضہ ہے تو اصل فریقین کی بجائے روس سے امریکہ تیسرے ملک میں خود مزاکرات کررہا ہے اور نہ صرف روس کی تمام شرائط تسلیم کرنے پر تیار ہے جس پر یوکرینی قیادت رنجید و پریشان ہے۔

    یوکرین چاہتا ہے کہ جنگ بندی کے متعلق ہونے والی گفتگو میں اُسے بھی شامل کیا جائے اِس کے لیے وہ مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے کے ساتھ نیٹو کی رُکنیت نہ لینے کی یقین دہانی کرانے پر بھی تیار ہے مگر امریکہ چاہتا ہے کہ یوکرین اُس کے کہنے پر غیر مشروط جنگ بندی کرے اور کسی قسم کی دفاعی یقین دہانی طلب کرنے کی بجائے اپنی قیمتی معدنیات امریکہ کو دینے کا معاہدہ کرلے مذکورہ اختلافات ہی دونوں صدور میں تلخی اور گرما گرمی کا باعث بنے۔

    47 سالہ ولادیمیر زیلنسکی سابقہ اداکار ہیں خوش شکل اور خوش لباس زیلنسکی کو بخوبی معلوم ہے کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور اُن کے دل جیتنے کے لیے کچھ منفرد کرنا ہوتا ہے۔ روس سے براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرنے والی اپنے ملک کی قیادت کو ڈرپوک کہہ کر اور یوکرین کو دنیا کا عظیم تر ملک بنانے جیسی باتوں سے ہی وہ لوگوں میں مقبول ہوکر صدر منتخب ہوئے مگر منصب سنبھال کر روس کو للکارنا غلطی تھی کیونکہ جوہری ہتھیاروں سے محرومی کے بعد ایک دیوہیکل ہمسائے سے الجھنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اگر زیلنسکی یورپ اور امریکہ سے تجارتی اور دفاعی تعلقات بڑھانے تک رہتے اور نیٹو رُکنیت کی ضد نہ کرتے تو روس شاید حملہ نہ کرتا۔ اب تین برس سے جو ہورہا ہے وہ دنیا کو معلوم ہے مگر امریکہ اور مغربی ممالک محض تماشائی ہیں۔ امریکہ تو پھر بھی بقول اُس کے پانچ سو ارب ڈالر دفاعی امداد دے چکا ہے مغربی ممالک کی تو امداد بھی قرض کی صورت میں ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ یوکرین کو استعمال کرنے کے بعد بیچ منجھدار چھوڑ دیا گیا ہے۔

    79 سالہ ٹرمپ نے جب کہا کہ آپ کے پاس پتے نہیں ہیں تو زیلنسکی کا جواب میں پتے کھیلنے نہیں آیا کی بجائے یہ بنتا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کی صورت میں کھیل کے پتوں سے تو آپ نے ہمیں محروم کردیا اور جس جنگ بندی کا حکم دے رہے ہو یہ آپ نے ہی تو شروع کرائی ہے۔ جوبائیڈن دور میں زیلنسکی کا اہلیہ سمیت بے مثال استقبال کے ساتھ کانگرس سے خطاب کا موقع دیا گیا مقصد یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا کر افواج روس کی سرحد کے پاس تعینات کرانا تھا مگر ٹرمپ نے امریکی ایجنڈا یکسر بدل دیا ہے جس کا زیلنسکی ادراک نہ کرسکے اب امریکہ قیمتی معدنیات ہتھیانے کے لیے جنگ ختم کرانا چاہتا ہے تاکہ امدادی لاگت بمع منافع وصول کی جا سکے اور امریکہ اول کے عوض ٹرمپ اپنے مغربی اتحادیوں کو بھی کھونے پر تیار ہیں جس سے نیٹو کا مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے۔

    زیلنسکی کو کچھ مغربی ممالک اب بھی تھپکی دے رہے ہیں قبل ازیں بھی تھپکی دیکر ہی اُنھیں جنگ میں دھکیلا گیا اور اب شکست دیکھ کر دوری اختیار کرنے لگے ہیں جبکہ یوکرین کو امریکہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنے لگا ہے اور زیلنسکی کو مجبور کیا جارہا ہے کہ صرف ایک حصہ اپنے پاس رکھے۔ صدر زیلنسکی کا رویہ سفارتی آداب کے مطابق تھا یا نہیں لیکن اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہتک آمیز رویے کے باوجود ایک طاقتور ملک کے صدر کو اُس کے گھر بیٹھ کر انھوں نے دلیرانہ جواب دیا جب میزبان کو سفارتی آداب کا احساس نہ رہے تو مہمان بھی پاسداری کا پابند نہیں رہتا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ زیلنسکی جسے ایک ہزار ڈالر کا سوٹ پہننے کا سلیقہ نہیں اِس بے وقوف کو پوٹن سنجیدہ لیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ رجیم چینج سے روس نواز صدر ہٹا کر امریکہ نواز زیلنسکی صدر منتخب ہوئے۔ نیز روسی سرحد پر میزائل نصب کرنے کی سہولت کے عوض یوکرین کو نیٹو کی رُکنیت دینے کی پیشکش نہ کی جاتی تو یہ خطہ جنگ کا میدان ہرگز نہ بنتا۔

    اب یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ یوکرین تنازع پر مغرب جزوی تقسیم اور امریکہ الگ روش پر گامزن ہے اور یورپ میں عالمی اتحاد اور دفاعی اخراجات بڑھانے کی سوچ جنم لے چکی ہے۔ کچھ جذباتی یورپی رہنما امریکہ کے بغیر براعظم کے تحفظ کی بات کرتے ہیں یہ تقسیم روس کے لیے بہترین ہے اسی لیے اُس کے خیال میں ٹرمپ عقلمند اور یورپ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے مگر زیلنسکی کو اقتدار سے الگ کرنا کسی کے لیے آسان نہیں رہا کیونکہ تمام تر دباؤ کے باوجود وہ یوکرینی مفاد کے محافظ رہنما بن کر اُبھرے ہیں۔

    یوکرین کی معدنی ذخائر اُس کی بدقسمتی بن چکے ہیں الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی گریفائٹ برآمد کرنے میں اُس کا دنیا میں پانچواں نمبر ہے بیٹریاں بنانے والی لیتھیئم، جہاز اور پاورسٹیشنز بنانے میں استعمال ہونے والی ٹائٹینیم سمیت دیگر سترہ قسم کی معدنیات کے بھی وسیع ذخائر ہیں جن پر امریکہ کی نظریں ہیں۔ ویسے تو روس کی طرف سے بھی یوکرین سے چھینے گئے علاقوں میں موجود معدنیات تک امریکہ کو رسائی دینے کی پیشکش ہے لیکن امریکی قیادت تقریباََ مفت کے لالچ میں ہے اسی لیے شکست خوردہ یوکرین کو نوچنا چاہتی ہے تاکہ نایاب معدنیات کے حوالہ سے مستقبل میں چین کی محتاجی نہ رہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق چین دنیا کے پچھہتر فیصد کے قریب معدنی ذخائر کو کنٹرول کرتا ہے تجارتی مسابقت کی وجہ سے اُس نے گزشتہ ستمبر میں امریکہ کو کچھ معدنیات برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے امریکہ کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ چین پر انحصار کم کرتے ہوئے متبادل تلاش کرے۔ بدقسمتی سے یوکرین متبادل دستیاب ہے اسی لیے جنگ تنازع پر معدنیات حاوی نظر آنے لگی ہیں۔