گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی سے رونما ہونے والی جیوپولیٹیکل تبدیلیاں ہمارے دفاع اور قومی سلامتی سے منسلک افراد اور اداروں سے تقاضا کرتی ہیں کہ پاکستان پر ان کے اثرات پر گہری نگاہ رکھی جائے۔
عالمگیریت کی جاری لہر سے اب تو اس بات کی توثیق ہوچکی ہے کہ یورپ اور ایشیا کبھی جغرافیائی طور پر دو الگ خطے نہیں تھے انھیں صرف کوہ اورال اور کاکیشیا کے دشوار گزار علاقوں نے ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔ یہ قدرے فکری تقسیم تھی اور ٹیکنالوجی سے جنم لینے والی عالم گیریت نے اس تقسیم کو بھی مٹا دیا۔ کوہ اورال کے دونوں اطراف بسنے والے کئی ثقافتی اور تاریخی مشترکات رکھتے ہیں۔
یوریشیا کو ایک براعظم تسلیم کیا جاناچاہیے۔ حال ہی میں سائبیریا کے وسیع و عریض علاقے کو روسی صدر پیوتن نے تعمیر وترقی کے لیے اپنی ترجیح قرار دیا ہے۔ چین چھ بڑے راستوں پر مشتمل بیلٹ اینڈ روڈ (بی آر آئی) پر کام کررہا ہے جس میں پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ شامل ہے۔ ان میں سے بعض کی تکمیل ہوچکی اور بعض پر کام جاری ہے۔ یہ منصوبہ یوریشیا کی سرزمین پر سفر کے نئے راستے کھول دے گا۔ آج جو کنٹینر چین سے یورپی بندرگاہ پر سمندر کے راستے 45دن میں پہنچتا ہے، بی آر آئی کی تکمیل کے بعد صرف 16دن میں یہ سفر طے کرلے گا۔
نئے تجارتی راستے نئے سیاسی اتحاد بنارہے ہیں۔ مغربی ایشیا میں کمیونزم کے پھیلاؤ اور توانائی کے ذخائر کو چین اور سوویت یونین کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے معاہدہ بغداد نے (جو بعد میں سینٹو کہلایا) 1955سے 1979تک ایران، عراق، پاکستان، ترکی اور برطانیہ کو یکجا کیے رکھا۔ آج صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔
پاکستان، ترکی اور ایران آج مغربی دنیا کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں جب کہ روس اور چین کے ساتھ ان تینوں ممالک کا دوستانہ تعلق استوار ہوچکا ہے۔ 1964میں سینٹو کے متوازی آر سی ڈی (علاقائی تعاون برائے ترقی) تنظیم تشکیل دی گئی جس کا مقصد ایران، پاکستان اور ترکی میں تعمیرو ترقی کو فروغ دینا تھا۔ ایک بار پھر ایسا ہی ایک اتحاد اگرچہ حتمی صورت میں نہیں تاہم یہ تشکیل پذیر ضرورہے۔ اس نئے اتحاد میں برطانیہ(اور امریکا) کی جگہ روس ہے۔ اقتصادی تعاون تنظیم نے آر سی ڈی کی جگہ لی تھی اور اس میں سات نئے ممالک افغانستان، آذر بائیجان، قزاقستان، کرغستان، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہوئے۔ تیزی سے بدلتی دنیا کا نقشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا۔
بی آر آئی نے سمندری راستوں کی صورت حال بھی تبدیل کردی ہے۔ امریکا اپنے پانچویں بحری بیڑے سے خلیج فارس، بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور دیگر بحری راستوں کے ساتھ بحر ہند کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ اسی طرح مشرق بعید میں جنوبی بحیرہ چین، آبنائے تائیوان اور ملاکا پر ساتویں بیڑے کے ذریعے اپنی گرفت سے چین کو بھی گھیرے ہوئے ہے۔ نئی شارع ریشم نے کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے ایسے راستے فراہم کردیے ہیں جس کے بعد امریکا کے یہ بیڑے بے کار ہوکر رہ گئے ہیں۔
امریکی بیڑے براہ راست ان زمینی راستوں میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بند ہوگیا ہے۔ اپنے نیول ایئر پورٹس کے ساتھ وہ اب بھی مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جاری سی پیک شارع ریشم کے منصوبے کا حصہ ہے، یہ چینی سرحد سے بحیرۂ عرب میں پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہوں تک پھیلی ہوئی راہ داری ہے۔ یہ منصوبہ1950کی دہائی سے زیر غور تھا۔ اسی مقصد کے تحت 1959میں شنشیانگ کو شمالی پاکستان سے جوڑنے والی قراقرم ہائی وے کی تعمیر کا منصوبہ بنایاگیا۔ قراقرم ہائے وی کی تعمیر کا ابتدائی مرحلہ جاری تھا، یہ 1970کی بات ہے میں Alouette-3 ہیلی کاپٹر میں بیجنگ یونیورسٹی سے آنے والے اپنے چینی مترجم کے ساتھ پرواز لے جا رہا تھا۔
میں نے اس وقت کہا تھا "تم چینی بے وقوف ہو۔ ایک ایسی سڑک کی تعمیر میں اتنی مصیبتیں اور پریشانیاں اٹھا رہے ہو جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں وہ کہا جاتی ہے۔" ایک مختصر وقفے کے بعد اس چینی نے جواب دیا:" ممکن ہے آج اس سڑک کا کوئی مقصد سمجھ میں نہ آرہا ہو لیکن تم پاکستانی صرف پانچ دس سال آگے ہی کا سوچ سکتے ہو اور ہم چینی پچاس یا سو سال کا سوچتے ہیں۔ تم پاکستانی بے وقوف ہو!" یہی مترجم 2003میں چین کے سفیر بن کر پاکستان آئے، اس وقت گوادر بندرگاہ کی تعمیر شروع ہوچکی تھی۔ انھوں نے مجھے فون کرکے پوچھا "اب بتاؤ، کون بے وقوف ہے؟"
آئی بی اے میں ایک امریکی یونیورسٹی سے آنے والے سینیئر پروفیسر، ماہر معیشت اور ایک بڑے اخبار کے کالم نگار نے سی پیک کو "خیالی پلاؤ" قرار دیا تھا۔ آج سی پیک ایک حقیقت ہے اور ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات اس سے منسلک ہیں۔ انفرااسٹرکچر اور صنعتوں کی ترقی، زراعت کی بہتری اور دنیا کے لیے پاکستان میں نئے مواقع اس منصوبے کے ثمرات ہیں۔ ہمارا ملک ایک دل چسپ دور سے گزر رہا ہے۔ عمران خان سے غلطیاں تو ہورہی ہیں لیکن کم از کم وہ ایک دیانت دار لیڈر ہیں اور معیشت کو راہ پر لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام اور اسٹاک مارکیٹ میں 12ہزار پوائنٹ کا اضافہ امید افزا علامتیں ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ہم نے ایک سنہری موقعہ ضایع کیا۔ نو گیارہ کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ اور 2005کے زلزلے کے بعد ملک میں اربوں ڈالر آرہے تھے۔ اس وقت صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی اس کے برعکس صدر مشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے اس بیش قیمت زرمبادلہ کو فریج، کاروں، موبائل وغیرہ میں جھونک دیا اور دعوی یہ کیا کہ اس سے کاروبار کو فروغ ملے گا۔ یہ سرمایہ توانائی، سڑکوں، ریلوں، پلوں وغیرہ کے منصوبوں میں لگنا چاہیے تھا۔ فریج اور کار وغیرہ خریدنے کے لیے دیے گئے آسان قرضوں اور موبائل فون پیکیجز نے، جو اکثر بے مصرف ہی استعمال ہوتے ہیں، مشرف کی مقبولیت میں تو اضافہ کیا لیکن معاشی حقائق نظر انداز کردیے گئے۔
عالمگیریت نے آبادی کی منتقلی کی راہ بھی ہموار کی ہے، جس کی وجہ سے انفرااسٹرکچر کی ترقی کو فروغ ملا ہے۔ اگر ہم مشرق وسطی کے دیگر مسلم ممالک سے موازنہ کریں تو پاکستان خوش قسمت رہا ہے۔ لیبیا، عراق، افغانستان، یمن سبھی مصائب کا شکار رہے ہیں اور اب تک ہیں۔ ہمارے اپنے مسائل ہیں، عسکریت اور دہشت گردی نے ہمیں نقصان تو پہنچایا لیکن ہم نے اپنا قبلہ درست کرلیا۔
یہاں ایل او سی کی دونوں جانب کشمیریوں کی رائے جاننے کے لیے بھی کچھ سوالوں پر غور کرنا چاہیے کہ آیا وہ بھارت یا پاکستان دونوں میں کسی کے ساتھ رہنے کے بجائے آزاد ہونے کو ترجیح دیں گے۔ یہ ایک مفروضاتی سوال ہے۔ اس بات کاامکان بہت کم ہے کہ بھارت اپنے ہاتھ سے زمین کا کوئی ٹکڑا نکلنے دے اور پاکستان بھی اپنے مفاد ہی کو ترجیح دے گا۔ پھر ہمیں اپنی بیس کروڑ سے زائد آبادی کے لیے پانی کے ذخائر کی حفاظت کو بھی یقینی بنانا ہے۔
سیاسی و معاشی تعلقات میں ہمیں اپنے افلاس زدہ عوام کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، جنھیں نہ ہی سماجی و معاشی انفرااسٹرکچر حاصل ہے اور نہ ہی اچھا طرز حکومت۔ ہمیں حالیہ سیاسی و معاشی تغیرات کا فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری اصلاحات کرلینی چاہییں۔ حالات تبدیل ہورہے ہیں۔
یہ وردی جن کے تن پر رہی اور جو آج اسے پہنتے ہیں، ہمیں اپنے بھائیوں، بھانجوں، بھتیجوں اور رشتے داروں کی ہوس زر کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دے سکتی۔ ایسے لوگوں کے وہ ساتھی جو ان کی غیر نصابی سرگرمیوں سے آگاہ رہے وہ بھی ان کے برابر کے شریک ہیں اور اس وردی کو داغ دار کرنے کے مرتکب ہیں جسے ہم نے ہمیشہ بڑے فخر سے تن پر سجایا ہے۔ خاکی کالر والے ایسے شریک جرم بھی برابر کے مجرم ہیں۔ جب تک ہم ان کا احتساب نہیں کرتے اور انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا نہیں کرتے، عوام سے نظریں نہیں ملا سکیں گے۔ ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا!
( یہ کالم 12نومبر 2019کو کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ میں سیکیورٹی پروفیشنلز ایسوسی ایشن (ایس پی اے) کے ساتھ کی گئی گفتگو کے اقتباسات پر مشتمل ہے)