جمعہ 11 اکتوبر کو اسلام آباد میں ڈی چوک سے ریڈیو پاکستان چوک تک بھارتی مظالم کے شکار کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اس بات پر شدید مایوسی کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی میڈیا پر ہانگ کانگ کے مظاہروں کو تو مسلسل کوریج دی جارہی ہے لیکن یہی میڈیا بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر خاموش ہے۔ انھوں نے اس رویے میں مضمر دہرے معیارات کی درست نشاندہی کی۔
ہانگ کانگ میں ہونے والے فسادات "جمہوریت" کے نام پر اٹھنے والی تحریک ہے جو ہائیبرڈ وار فیئر کے تحت ہونے والا ایک فالس فلیگ آپریشن ہے۔ چین کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے یہ ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ مغربی ممالک اور بالخصوص یورپ نے ایک خاص حد تک خود کو اس معاملے سے دور رکھا ہے کیوں کہ حالات پر قابو پانے کے لیے چین کے ممکنہ کریک ڈاؤن سے انھیں اپنے مفادات متاثر ہونے کا اندازہ ہے۔
معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کیوں کہ چین کے ساتھ یورپ کے اپنے تجارتی مسائل ہیں، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی تکمیل کے بعد آخر کار ہانگ کانگ بھی غیر متعلق ہوجائے گا۔ دوسری جانب کشمیر سے یورپ اور مغرب کے مفادات وابستہ نہیں۔ ان کے لیے یہ ایک دور دراز زمین پر جاری تنازعہ ہے، ان کے اکثر لوگ مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر سے واقف نہیں ( یا اسے تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ) اور جب تک انھیں اس جانب مائل نہ کیا جائے تو وہ اس بارے میں زیادہ جاننے کے خواہش مند بھی نہیں۔
زیادہ سے زیادہ وہ کشمیریوں کے انسانی حقوق پر یہی کہتے ہیں کہ ہمیں افسوس ہے لیکن کشمیریوں کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اور اس کا عالمی امیج بھی بہتر ہے۔
تاہم حال ہی میں امریکی سینیٹ میں دیے گئے اپنے بیان میں امریکی اہلکار ایلس ویلز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر پر تنقید کرتے ہوئے اسے روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن انھوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر اظہارِ خیال کرکے پلڑا برابر رکھنے کی کوشش کی۔ کوئی پوچھے کہ کشمیر میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں وہ کیا فرماتی ہیں، بلکہ خود بھارت میں میڈیا کو جو نام نہاد آزادی حاصل ہے اس پر بھی انھوں نے کچھ ارشاد کیا؟
کیا اس سے یہ مطلب لینا چاہیے کہ مغرب میں ہم کشمیر کے مسئلے پر ہمدردی نہ بھی پیدا کرسکیں تو کیا انھیں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک بھی نہیں کروایا جاسکتا؟ یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن اپنا پیغام عام کرنے کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ یورپ میں سیاسی اور بڑے کاروباری اداروں کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسرے کا درد رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ یاد کیجیے کہ پناہ گزینوں کی مدد کے لیے یورپ میں کیسی لہر اٹھی تھی۔ لیکن اس کے لیے ان پر صورت حال واضح کرنا ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں عمران خان کی تقریر ایسی ہی ایک بڑی کوشش تھی جس سے بڑے پیمانے پر کشمیر کے مسائل اجاگر کرنے میں مدد ملی۔ بدقسمتی سے دفتر خارجہ، وزیر خارجہ اور دنیا بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانے کشمیر کے مسئلے کو مطلوبہ حد تک اجاگر کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
اگرچہ کشمیر برس ہا برس سے ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ رہا ہے لیکن اس سے متعلق ہمارے سفارت خانوں کی کوششیں "داخلی حلقوں " میں بے روح تقریبات منعقد کرنے جیسے دقیانوسی طریقوں تک ہی محدود ہیں جن کا میزبان ملک اور اس کے معاشرے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں ہے کہ برسوں سے 5 فروری کو پاکستانی سفارت خانے کی تقریبات میں ایک ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے، کچھ دیگر سفارت کار اور عملے کے اہل خانہ شریک ہوجاتے ہیں، اس وقت کا سفیر کشمیر پر ایک رٹی رٹائی تقریر کرتا ہے اور بس؟ ایسی تقریبات سے میزبان ملک میں اس مسئلے سے متعلق دردمندی یا احساس پیدا کرنے میں کتنی مدد مل سکتی ہے؟
عمران خان کی پُراثر تقریر کے بعد مسلسل ہم یہ تجویز دہرا رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں ذمے داریاں ادا کرنے والے سبکدوش سفیروں کو ان ممالک میں بھیجا جائے اور وہاں وہ اپنے پرانے روابط کو استعمال میں لا کر کشمیر کی صورت حال عام لوگوں اور مؤثر حلقوں کے سامنے لائیں۔ یقینی طور پر اس کام کے لیے صرف ایسے سابق سفارت کاروں کا انتخاب کیا جائے جو ان ممالک میں رسوخ رکھتے ہوں اور ان کے رابطے کسی نہ کسی طور ابھی تک قائم ہوں۔
یہ حکومتی خرچ پر پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے کیے گئے سیاحتی دورے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ سابق سفارتکار ان ممالک میں جا کر ایسی تقریبات اور سرگرمیوں کا انعقاد کریں جس میں وہاں کے عام لوگ بھی شامل ہوں۔ گفتگو کے بنیادی نکات بھی ٹھوس حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں کہ کیوں پاکستان اس معاملے پر اتنا سنجیدہ ہے اور اس سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے، بھارت کو نہ روکا گیا تو کیا خطرات جنم لیں گے، اس کے علاوہ کیا خدشات ہوسکتے ہیں۔ اس میں مشکل سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے اور اس کے لیے کھلے دل سے تیار رہنا ہوگا۔
اس مہم میں ہمارے کہنہ مشق سفیروں کو عالمی جامعات میں پہلے ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے سرگرم دانشوروں اور نوجوانوں سے خطاب کرنے چاہئیں۔ اسلام آباد میں جرمن سیاسی فاونڈیشنز، فرانس اور دیگر ممالک کے ثقافتی مراکز سے بھی اس سلسلے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ عالمی جامعات میں بھارتی شہریوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، کشمیر پر ہونے والی کسی سرگرمی میں ان کی شرکت یقینی ہوگی اور وہ خاموش بھی نہیں رہیں گے، اس لیے ان کا سامنا کرنے کی تیاری بھی پوری ہونی چاہیے۔
موجودہ صورت حال میں جس قدر ممکن ہو کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچائی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزارت خارجہ کے ارباب اختیار ابھی تک ان تجاویز کو کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟ یا وہ صرف اس لیے ان پر توجہ نہیں دے رہے کہ یہ خیال ان کے دماغ کی اختراع نہیں بلکہ کسی اور نے انھیں کچھ سمجھانے کی جسارت کرلی ہے؟
ہمیں کچھ ممالک کی مدد پہلے ہی حاصل ہے۔ ترکی اور ملیشیا جیسے دو بڑے اور اہم مسلم ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی واضح تائید کی ہے۔ کچھ ہی دن پہلے ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ بھارتی تاجروں کی جانب سے ملیشین پام آئل کی درآمد کے بائیکاٹ کے مطالبے کے باوجود کشمیر میں بھارتی اقدامات پر تنقید سے باز نہیں آئیں گے۔
اس کے نتیجے میں مہاتر کے مطابق پام آئل کے دوسرے سب سے بڑے پیداواری اور برآمد کنندہ ملک اور دنیا میں اس کے سب سے بڑے خریدار کے مابین تجارتی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے، جب کہ ملیشیا کا وسیع مفاد داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ترک صدر اردگان نے اگست میں بھارتی اقدام کے فوری بعد بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے زور دیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے اس برس انقرہ کا طے شدہ دورہ موخر کیا اور ترک صدر کے بیان پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کی درآمدات کم کرنے جیسے اقدامات بھی کیے۔
کچھ مزید اقدامات بھی کیے جاسکتے ہیں۔ دہائیوں سے پاکستان نے دنیا میں اپنا امیج بہتر بنانے کی کوششوں کو نظر انداز کیا ہے۔ ہم نے بھارت اور بھارت سے ہمدردی رکھنے والے میڈیا کے لیے میدان کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں دنیا بھر میں قائم پاکستانی ثقافتی مراکز میں تعینات کلچرل اتاشیوں کو حرکت میں لانا ہوگا۔
یہ مراکز ادب، فیشن، فنون لطیفہ اور فلموں وغیرہ سے متعلق ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کریں اور انھی سرگرمیوں کے ذریعے کشمیر پر پاکستانی موقف کو عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ ان سرگرمیوں کے لیے بجٹ مختص ہو تاکہ فن کاروں اور ادیبوں کو ان کے فن پاروں کے ساتھ مدعو کیا جاسکے، ان کی نمائشوں کا اہتمام ہو اور اس کی باقاعدہ تشہیر بھی ہو۔
مغربی دارالحکومتوں میں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج میں دیگر ممالک کو شریک کرنے کے لیے وہاں قائم ترکی اور ملیشیا کے سفارت خانوں سے بھی تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسی کئی تجاویز ہوسکتی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ اظہار افسوس کردینا کافی نہیں کہ دنیا کشمیروں کی حالت زار پر متوجہ کیوں نہیں ہورہی۔ اس کے لیے اپنے روایتی دائرے سے نکل کر مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )