حزب اختلاف تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے کے اپنے مشترکہ مقصد میں ناکام ہوگئی۔ عمران خان کے استعفے سمیت اپوزیشن کے علانیہ اہداف تو حاصل نہیں ہوسکے تاہم مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو جیل سے نکال کے بیرون ملک لے جانے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری کو اسلام آباد کی جیل سے سندھ کی "تحویل" میں دینے کے غیر علانیہ اہداف میں سے ایک میں جزوی کامیابی ہی ہاتھ آسکی۔
حکومت نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کے ذریعے صورت حال کو ٹالتی رہی یہاں تک کہ قدرت کی مداخلت آپہنچی۔ سال کے اس حصے میں دارالحکومت میں سرد موسم کی بڑھتی شدت اور برسات توقع کے عین مطابق تھی اور اسی کے پیش نظر مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کو بہت جلدی میں سمیٹ دیا۔ یعنی وہ کوئی معرکہ سر نہیں کرسکے۔ یوں بھی "سردی کے جرنیل" نے نپولین اور ہٹلر جیسوں کی افواج کو شکست دے رکھی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے جمع کیے گئے ہجوم کو خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا، انھیں حکومت کی جانب سے کوئی فیس سیونگ بھی نہیں مل سکی۔ پلان "اے" تو ہوا ہوگیا اور فضل الرحمن نے احتجاج کو ملکی سطح پر پھیلانے کے اپنے "پلان بی" کا اعلان کردیا وہ بھی مطلوبہ نتائج نہ دے سکا۔ مولانا کو صورتحال اس وقت ہی سمجھ لینا چاہیے تھی جب پیپلزپارٹی نے سندھ میں شاہراہیں بند کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا نے اپنے پلان بی کے لیے "رہبر کمیٹی" کی منظوری حاصل نہیں کی اور ممکن ہے کہ انھیں پہلے ہی اندازہ ہو کہ ان کے اس پلان کو اپوزیشن کی حمایت نہیں مل سکے گی اس لیے انھوں نے از خود ہی یہ قدم اٹھایا۔ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے ابتدا ہی سے نیم دلانہ رویہ رکھا۔ ان دونوں جماعتوں کا اندازہ تھا کہ کسی بڑی احتجاجی تحریک کے لیے ان کی تیاری نہیں اور موسمی تیور بھی ان سے چھپے نہیں تھے۔ اسی لیے ان جماعتوں نے مولانا کی حمایت میں محتاط رویہ اپنایا۔
نواز شریف کو آزاد کروانے کا دوسرا منصوبہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ جو صورت حال پیدا کی گئی اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مقصد کسی طرح نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنا ہے، اس کا ان کے علاج معالجے سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کی سطح پر تو اسے اس لیے بھی دریا دلی کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف سے متعلق کسی بھی قسم کی نرمی برتنے پر عمران خان کو اپنی ہی جماعت کے اندر سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سب کے باوجود نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی اور ضرورت پڑنے پر اس مدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
شرط صرف یہ رکھی گئی ہے کہ وہ فرار نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کی واپسی کو (کسی حد تک) یقینی بنانے کے لیے اچھی خاصی بڑی رقم کے بانڈ کا مطالبہ رکھا گیا۔ اگر نواز شریف وطن واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں تو بھلے سے ضمانتی بانڈ کی رقم کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، یہ دینے میں کیا حرج تھا۔ حکومت نے نواز شریف کی صحت اور زندگی کے لیے خود پر عائد ہونے والی ذمے داریاں پوری طرح ادا کیں۔ اگر نواز شریف ملک میں رہنے کا فیصلہ کرتے تو انھیں یا تو اسپتال میں ہونا چاہیے تھا یا جیل میں۔
جیل پہنچتے ہی آصف زرداری کی طبیعت بھی ناساز رہنے لگی۔ ہم میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ وہ 1997سے 2004 تک ایسی ہی ایک "قید" کاٹ چکے ہیں۔ قید میں ہونے کے باوجود وہ 1990میں قومی اسمبلی اور 1997میں سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے اور برائے نام ہی ان ایوانوں کی کارروائی میں شریک ہوئے۔ مزید یہ کہ اس دور میں جب وہ "شدید بیمار" ہوتے تھے تو ان کے "خصوصی علاج"کے لیے ضیاء الدین اسپتال کی پوری ایک منزل مختص کردی جاتی تھی۔"جیل" سے رہائی کے بعد آصف زرداری نے دبئی اور نیویارک میں جلاوطنی اختیار کی اور 27دسمبر 2007کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب انھیں اپنا سیاسی مستقبل نظر آیا تبھی پاکستان واپس آئے۔ اقتدار میں آتے ہی وہ صحت یاب ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ انھیں صحت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
ایک بار پھر منی لانڈرنگ کیس میں وہ 10جون سے عدالتی ریمانڈ پر ہیں اور اس بار انھیں سندھ کے بجائے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے، جہاں ظاہر ہے انھیں یہاں جیسی سہولیات دستیاب نہیں۔ جب انھوں نے اپنی صحت کی خرابی کی شکایت کی تو معالجین کی ایک ٹیم نے ان کا معائنہ کیا اور 21اگست کو انھیں اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ میڈیکل ٹیم نے جیل حکام کو یہ تجویز دی کہ آصف زرداری کو ادویات کی فراہمی اور فزیوتھراپی یقینی بنائی جائے۔ اکتوبر میں وہ (نواز شریف کی طرح) پلیٹ لیٹس کی کمی کے باعث ایک بار پھر اسپتال میں داخل ہوئے۔ لیکن اطمینان بخش رپورٹس آتے ہی انھیں واپس جیل بھیج دیا گیا۔ ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے سابق صدر نے کہا کہ خدا نے چاہا تو مولانا فضل الرحمن اس حکومت کو گرانے کے اپنے مقصد میں کام یاب ہوں گے۔ یعنی وہ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اس کے بعد وہ بہ آسانی جیل سے نکل آئیں گے۔
یہ کیسی بات ہے کہ سیاست کے بڑے کھلاڑی بوڑھے ہوچکے ہیں، درد سے کراہتے ہیں، لیکن اپنے کیے کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید انھیں اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ جن کاموں کو وہ اپنا حق سمجھتے رہے، انھیں ہی کرپشن کہا جاتا ہے۔
ہمیں اب سیاست دانوں کی ایک ایسی نئی نسل کی ضرورت ہو جو دیانت داری سے پاکستان کی خدمت کرے اور اس کے لیے اپنا مفاد ملک پر مقدم نہ ہو۔ زرداری کو شاید کچھ عرصہ جیل ہی میں رہنا پڑے۔ جب ویت نام کی جنگ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی تو 1966میں امریکی صدر لینڈن بی جانسن کو ریاست ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جارج ایکن نے مشورہ دیا تھا"فتح کا اعلان کریں اور نکلیں "۔ خیر، سیاست کے میدان میں عمران خان نے پلان اے کی پہلی گیند پر تو چھکا لگا دیا اور پلان بی بھی کوئی رنگ نہ لا سکا۔ سیاست میں موقع محل دیکھ کر ہی بہادری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسی لیے مولانا فضل الرحمن کو بھی بس فتح کا اعلان کرکے اسلام آباد سے نکلنے میں عافیت نظر آئی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )