معیشت کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کے دفاع کے لیے اس کی حکومت کا سب سے طاقتور ہتھیار ہوتا ہے۔ وسیع تر سلامتی کے لیے تزویراتی یا اسٹرٹیجک اثاثوں سے متعلق اقتصادی سرگرمیوں کو بھی محفوظ بنایا جاتا ہے۔
امریکی حکومت نے اپنے "تزویراتی اثاثوں " کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنا رکھے ہیں، ان اثاثوں میں قابل کاشت اراضی، ٹیلی کمیونیکیشن اور دفاعی پیداوار سے متعلق کارپوریشنز شامل ہیں۔ ایسے شعبوں کے لیے خطرات کا باعث بننے والی کسی بھی غیر ملکی سرمایہ کاری سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کو قومی مفادات اور تزویراتی اثاثوں کے تحفظ کے لیے تمام مطلوب اختیارات فراہم کرنے کے لیے قوانین کا ایک پورا ڈھانچا تشکیل دیا گیا ہے۔
امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر کنٹرول رکھنے کے لیے ہونے والی قانون سازی میں ایکزون فلوریو ترمیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ 1950کے دفاعی پیداواری ایکٹ میں یہ ترمیم 1988میں کی گئی، اور اسے " براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے قومی سلامتی کے فلٹر" کے طور پر اومنی بس ٹریڈ اینڈ کمپیٹیٹیو ایکٹ کا حصہ بنایا گیا۔ 1993میں ڈیفینس آتھورائزیشن ایکٹ، جسے بائرڈ ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے، متعارف کروایا گیا جس میں تھرڈ پارٹی ٹرانزیکشنز کو بھی قومی سلامتی کے دائرے میں شامل کر دیا گیا۔
کسی دوسرے ملک یا غیر ملکی کمپنی کی جانب سے ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکی کنٹرول پر قابض ہونے کے لیے کسی مربوط کوشش یا صنعتی جاسوسی کے خلاف جاری تحقیقات سے متعلق کانگریس کو فوری طور پر مطلع کرنے اور ہر چار سال بعد ٹھوس شواہد پر مشتمل مفصل رپورٹ جمع کروانا لازم کیا گیا۔
امریکا میں ایئرلائن کی صنعت قومی سلامتی سے متعلق معاشی تصور کی علامت ہے۔ 1958 کے ایوی ایشن ایکٹ کے مطابق صرف امریکی شہری ہی مقامی سطح پر ہوابازی کی خدمات فراہم کرنے کا مجاز ہے۔ زمین کی علامتی اور تزویراتی اہمیت کے پیش نظر امریکا میں قابل کاشت زمین کے قومی سلامتی کے تناظر میں تحفظ کے لیے بھی قانون سازی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ 1979کے بعد سے بیس امریکی ریاستوں میں غیرملکیوں پر قابل کاشت زمین کی ملکیت رکھنے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
اس کے علاوہ امریکی کانگریس کی منظور شدہ قانون سازی کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کار پر لازم ہے کہ وہ سیکریٹری زراعت کو امریکا میں قابل کاشت زمین کی خریداری یا طویل المیعاد لیز کی تفصیلات سے آگاہ رکھے۔ اس سلسلے تحفظات زیادہ علامتی نوعیت کے ہیں۔ 1934 تک غیر ملکیوں کے حق ملکیت پر مکمل پابندی کے قوانین موجود رہے۔
بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکشن کے شعبے کو بھی قومی سلامتی کے تناظر ہی میں دیکھا گیا اور 1996 میں ہونے والی قانون سازی کے بعد اس میں بھی غیر ملکیوں کی زیر ملکیت کمپنیوں کو خدمات فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اسی طرح مقامی سطح پر بھی کارپوریشنز کے لیے کڑے ضوابط رکھے گئے۔ 1996 کے ایکٹ کے بعد غیر ملکیوں یا غیر ملکی کمپنیوں کے لیے امریکا کی ٹیلی کمیونیکشن کی صنعت کے بعض مخصوص شعبوں میں کاروبار کرنے کی ممانعت کردی گئی۔
1985 میں رپرٹ مرڈوک نے میٹرومیڈیا ٹیلی وژن اسٹیشنز خریدنا چاہے تو امریکا نے اس پر ایف سی سی کے قواعد کی بنا پر امریکی شہریت اختیار کرنے کی شرط عائد کی۔ ایک چینی اور ایک سنگاپوری کمپنی نے جب ایک دیوالیہ امریکی کارپوریشن خریدنا چاہی تو عدالت نے اس سودے کی اجازت نہیں دی۔ خریداروں میں سے ایک کے لیے عدالت نے لکھا "ہوچنسن ہانک کانگ سے تعلق رکھنے والا ادارہ ہے اور اب ہانک کانگ چین کے سیاسی اختیار میں ہے اس لیے اسے قومی سلامتی امور سے متعلق امور کو دیکھنے والے سی ایف آئی یو ایس سے توثیق حاصل کرنا ہو گی جو کہ مشکل یا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔
1990 میں ایک امریکی ایئرو اسپیس کمپنی میں ایک چینی کمپنی کی حصہ داری کو روکنے کے لیے صدر بش نے 1950کے دفاعی پیداواری ایکٹ کا استعمال کیا۔ تھامسن ایل ٹی وی ڈیل اس لیے ختم کر دی گئی کہ اس میں ایک فرانسیسی کمپنی کو امریکی فوج کو سپلائی کرنے کا رسک بہت زیادہ تھا اور اس میں تھرڈ پارٹی ٹرانزیکشن اور ایکسپورٹیشن کے بہت زیادہ امکانات تھے۔
یورپی یونین ایئر لائن اور جاپان ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں اکثریتی مقامی ملکیت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے سو فیصد موبائل ٹیلی فون غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ عالمی سطح پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر (ایف ڈی آئی) پر عائد کی گئی محدودات کا تعلق نان مینوفیکچرنگ شعبوں سے ہے، جن میں بجلی، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن کے لیے سب سے زیادہ کڑے ضوابط رکھے جاتے ہیں اور مالیات کا شعبہ بھی اس میں شامل ہے۔
آئس لینڈ میں ماہی گیری اور توانائی کی صنعتوں میں غیر ملکی ملکیت پر مکمل پابندی عائد ہے۔ پیٹرولیم سے متعلق میکسیکو میں ایسی ہی پابندیاں ہیں۔ شہری اراضی، بینکاری، ہوابازی، ایئرپورٹ، جہاز رانی، براڈکاسٹنگ، اخبارات اور ٹیلی کمیونیکیشن جیسے "حساس شعبوں " میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق آسٹریلیا میں بھی سخت قواعد و ضوابط لاگو ہیں۔ آسٹریلیا میں بالخصوص ٹیلی کمیونی کیشن میں ملکیت سے متعلق خصوصی قوانین نافذ ہیں۔
حالاں کہ 1980 کے بعد سے ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق قدرے آزادانہ پالیسی اختیار کی گئی ہے تاہم جون 2005 میں چینی کمپنی کنوک کی امریکی آئل کمپنی یونوکال(Unocal)کی خریداری کانگریس کی قرارداد کے ذریعے روک دی گئی۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ ان دونوں کمپنیوں کے انضمام سے امریکا کے غیر معمولی قدرتی وسائل چین کے ہاتھ میں منتقل ہو جائیں گے۔
آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت میں اس کے چیئرمین ڈنکین ہنٹر نے اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا "حقیقت یہ ہے کہ توانائی تزویراتی جنس ہے" اور اس کے ذریعے قومی سلامتی پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے اور یہ کہ یونو کال اور کنوک کا معاہدہ اس میں شامل مختلف خطوں میں چین کی "امریکی مفادات تک دسترس بڑھانے" کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔ 2اگست 2005 کو کنوک نے یونوکال کے لیے اپنی پیش کش سے دست برداری کا اشارہ دیا۔ دوسری جانب کانگریس نے دہرے استعمال کی مخصوص ٹیکنالوجیز کی چین کو برآمد کا دروازہ کھول دیا۔
آرگنائزیشن فوراکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کی سرمایہ کاری کے ضابطوں کی بنیاد پر کی گئی درجہ بندی کے مطابق یورپی یونین میں سب سے زیادہ نرمی برتی جاتی ہے۔ دنیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا مرکز یورپ ہے اور یورپ میں بیرونی سرمایہ کاری 2017 میں 6295 ارب یور تک پہنچ چکی تھی جس سے ایک کروڑ 60 لاکھ یورپیوں کو براہ راست روزگار کے مواقعے میسر آئے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی جانچ پڑتال کے لیے یورپی یونین کا نیا فریم ورک 10 اپریل 2019سے نافذ کیا گیا۔ یورپی یونین میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلقہ یورپ کی سلامتی اور مفاد عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ فریم ورک ستمبر 2017 میں تجویز کیا گیا تھا۔ اس قانون سازی میں یورپی سلامتی اور نظم عمومی کے لیے حساسیت رکھنے والے تزویراتی اثاثوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان اثاثوں میں، خاص طور پر حساس ٹیکنالوجی کی خریداری، انفرا اسٹر کچر یا حساس معلومات جس میں توانائی اور ٹیلی کمیونیکشن جیسے شعبوں کو مرکزیت حاصل ہے۔ فریم ورک صرف تجاویز فراہم کرتا ہے اس پر عمل درآمد کو لازم نہیں رکھا گیا۔
( سیکیورٹی اوردفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل کے قومی سلامتی جیسے اہم موضوع پر دوحصوں میں لکھے گئے مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے)