Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khittay Ki Soorat e Haal Aur Pakistan

Khittay Ki Soorat e Haal Aur Pakistan

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے اب پاکستان پر امریکی دبائو بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ سرزمین پاکستان پر ایک بار پھر امریکی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی جائے گو کہ ترجمان وزارت خارجہ نے اس ضمن میں حکومت پاکستان کا موقف کھل کر بتا دیا ہے کہ اب پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا امریکہ کے عسکری اور سفارتی ذرائع نے حکومت پاکستان سے رابطہ بدستور قائم کر رکھا ہے کہ پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے امریکی افواج کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی جائے کہ جب امریکی افواج افغانستان سے باہر نکلتی ہیں تاکہ وہ اپنا جنگی سازو سامان باحفاظت پاکستان کے راستے لے جا سکیں ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کا شمسی بیس امریکی فوج کو دے رکھا تھا اس کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں حسین حقانی کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں امریکی بلیک واٹر اور سی آئی اے کے دیگر اہلکاروں کو پاکستان آنے کے ویزے جاری کروائے ان دنوں میں اسلام آباد میں امریکی سفارتی مشن ایشیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک تھا اس کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسی"را" اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی "موساد" کو بھی افغانستان میں مشترکہ نیٹ ورک چلانے کی بھر پور سہولت فراہم کی گئی ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف چین کے خلاف خفیہ طور پر جاسوسی کا جال بچھایا گیا ان ہی کارروائیوں کے نتیجے میں سرزمین پاکستان پر دہشت گردی بھی کروائی گئی حتیٰ کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اس پورے کھیل میں بھارت اور اسرائیلمل کر کارروائی کرنے والے تھے، پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سی پیک کی سخت مخالف ہیں کیونکہ پاکستان اب خطے میں مرکزی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔

بھارت پاکستان کے اندر ہر وہ حربہ استعمال کرتا ہے جس سے پاکستان میں سیاسی طور پر محاذ آرائی قائم رہے اور پھر معاشی طور پر پاکستان کو بحرانی صورت حال میں مبتلا رکھا جائے اس سلسلے میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ہمیشہ کی طرح اپنے مشن پر کام کر رہی ہے پاکستان میں صحافت کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ بھارتی میڈیا کر رہا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ ایک منظم سازش ہے جس کا جال اب بنا جا رہا ہے اس میں بھارت کا کردار کلیدی ہے۔ پاکستان پوری مسلم امہ میں واحد ایٹمی قوت ہے اور پھرپاکستان چین کے ساتھ مل کر جس معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے اس سے خطے میں پاکستان کو منفرد حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سفارتی کامیا بیاں ملی ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلم ریاستوں کی مشترکہ سفارت کاری ہے جو کہ اقوام متحدہ میں دیکھی گئی ہے اس میں پاکستان کا کردار بڑا واضح ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی سفارت کاری اقوام عالم میں اعلیٰ حیثیت سے ہمکنار ہوئی ہے پاکستان کا موقف تسلیم کیا جانے لگا ہے جو کہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں جو مظالم ڈھائے جا رہے یہ مسلم امہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ افواج پاکستان جس کو اب پوری دنیا میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان مخالف قوتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ پاکستان نے جس طریقے سے دہشت گردی کے ناسور پر قابوپایا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جس طرح دہشت گردوں اور شدت پسند عناصر کا خاتمہ کیا ہے اس میں افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ مہارت ہی ہے جو کہ پاکستان کو محفوظ بنائے ہوئے ہے۔

برطانوی اور امریکی افواج کے اعلیٰ افسران سے لندن میں بعض سفارتی تقریبات میں گفتگو کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو وہ بڑے واضح الفاظ میں افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔ چند مخصوص لوگوں نے جس طریقے سے ایک حساس ادارے کے خلاف اپنی مہم شروع کر رکھی ہے یہ ریاست پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے۔ جو یقینا غیر ملکی ایجنڈے کی کڑی ہے جو کہ دیگر مسلم ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ذرا تھوڑا ماضی میں دیکھیں کہ جب سرزمین پاکستان پر امریکی افواج نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کر کے اسامہبن لادن کو جان بحق کیا یہ فوجی کارروائی کو پاکستان کی قومی سلامتی اور یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی لیکن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس آپریشن پر امریکی صدر بارک حسین اوباما کو مبارکباد دی تھی۔ بارک حسین اوباما اپنی کتاب A Promised Landکے صفحہ نمبر 696پر اس آپریشن کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ آپریشن کرنے کی اجازت دی اور پھر اس آپریشن کے بعد صدر آصف علی زرداری کو فون کیا تو میرا خیال تھا کہ میری یہ فون کال انتہائی مشکل ہو گی اور مجھے تلخ الفاظ سننے کو ملیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ آصف علی زرداری نے ہمارے اس آپریشن پر ہمیں مبارکباد دی اور امریکی افواج کی تعریف کی۔

میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر بل کلنٹن سے پاکستان میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کی غرض سے امریکی حمایت مانگتے رہے اور ساتھ ہی وزیر اعظم ہائوس میں امریکی فوجی کمانڈوں کی کمانڈ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے جو کہ فوجی بغاوت کی صورت میں ان کی حفاظت کر سکیں اور فوجی مداخلت کو ناکام بنانے میں کارگر ثابت ہو سکیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو کہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور قومی اداروں پر بے جا کیچڑ نہ اچھالا جائے اور ساتھ ہی ابن الوقت اور بدعنوان حکمرانوں کی خاندانی اجارہ داریوں سے نجات حاصل کی جائے۔