دنیا بھر کے لیے معمول کے مطابق ایک بار پھر 5 اگست کی تاریخ آئی اور گذر گئی، مگر مقبوضہ جموں اور کشمیر کے باسیوں کے لیے جیسے پانچ اگست کی تاریخ 2019 میں حنوط ہو کر رہ گئی ہے۔
نئی دہلی میں بیٹھے مودی سرکار کے ایک وزیر جتیندر سنگھ کے بقول جموں اور کشمیر کے باسیوں کو اب اڑنے کے لیے پَر مل گئے ہیں، اب وہ بھارت کی ترقی میں پہلے سے کہیں زیادہ کردار ادا کر سکیں گے۔
دوسری طرف جن کی شناخت اور خودمختاری کے پَر کاٹ دئے گئے ان کی دُہائی بالکل مختلف ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے لیڈر میر واعظ فاروق کا کہنا ہے کہ بھارت اور دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت نے اصل میں جموں و کشمیر کا تنازعہ مزید الجھا دیا ہے۔ اس اقدام سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول جو چین کے ساتھ سرحدی لائن ہے کے علاقوں میں بھی شعلے بھڑکا دئے ہیں۔
کہاں تو یہ کہ2019 سے قبل بھارت کو صرف جموں و کشمیر ہی بطور ٹربل اسپاٹ کا سامنا تھا مگر آج اسے چار ٹربل اسپاٹس کا سامنا ہے؛ لہہ (Leh)، کارگل، جموں اور کشمیر۔ مسلسل جبر، خوف وہراس، میڈیا پابندیوں، گرفتاریوں، مقامی افراد کی حکومتی ملازمتوں سے یکطرفہ برطرفیاں اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے باوجود صورت حال کنٹرول سے باہر ہے، اسی لیے بھارت مسلسل زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہے۔
میر واعظ فاروق کا کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ جموں و کشمیر کے حل طلب تنازعہ سلجھانے کی بجائے اس نے اس سرحد پر دو نئے تنازعے مزید الجھا دئے ہیں، تاہم بھارت نے جو راستہ اپنے لیے اختیار کیا ہے، خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ایک عرصے تک بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے اور مختلف زبانوں اور مذاہب پر مشتمل ایسے ملک کا فخر تھا جہاں سب ساتھ رہتے ہیں۔ جواہر لال نہرو اور بعد ازاں کانگریس سمیت سب بڑی سیاسی جماعتوں نے سیکولر قدر کو اپنے ملک کے استحکام اور نظام کی بنیاد کے طور پر پیش کیا۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سیکولر رویے سے بہت بڑا سیاسی، معاشرتی اور انتظامی سہارا تھا مگر پچھلے تیس سالوں سے بھارت دھیرے دھیرے سیکولر ازم بطور ایک سیاسی، انتظامی اور معاشرتی قدر کے اثرسے بہت دور نکل آیا ہے۔ اب بھارت کی اکثریت ایک ہندو نیشنلزم اور ہندوتوا شناخت کو اپنی پہچان اور منزل بنانے کی خواہاں ہے۔ PEW ریسرچ سینٹر واشنگٹن میں قائم ایک عالمی شہرت کا ادارہ ہے۔ اس ادارے نے اپنے ایک حالیہ مگر بہت اہم اور وسیع سروے کے نتائج پچھلے ماہ شائع کیے ہیں۔ ان نتائج نے بھارت کے بارے میں دنیا کے گمان کو حیران کر دیا ہے۔ سروے کا بنیادی مقصد بھارت میں مذہبی رویوں اور رجحانات کو جانچنا تھا۔
فیس ٹو فیس اس سروے میں تیس ہزار بالغ بھارتی افراد سے سترہ زبانوں میں سوالات پوچھے گئے۔ یہ سروے 2019 کے اواخر اور 2020 کے اوائل کیا گیا، یعنی کووڈ19 سے کچھ پہلے۔ اس سروے کا پھیلاؤ بھارت کے تمام علاقوں میں کیا گیا واضح رہے کہ ہندو آبادی کا تقریباً 80% بتائے جاتے ہیں۔ بنیادی نتائج کچھ یوں سامنے آئے۔
64% ہندوؤں کا خیال تھا کہ سچا ہندوستانی ہونے کے لیے ہندو ہونا اہم ہے۔ ان میں سے 80% ہندوؤں کا خیال ہے کہ سچے ہندوستانی کے لیے ہندی بولنا ضروری ہے۔
دو تہائی سے زائد ہندو مرد اور عورت دونوں کے لیے بین المذاہب شادیوں کے مخالف ہیں۔ سروے کیے گئے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اسی خیال کی حامی ہے۔
36% سے زائد ہندو مسلمان پڑوسی نہیں چاہتے البتہ58% اپنے پڑوس میں مسلمان خاندان کے لیے تیار تھے۔
48% مسلمانوں کا خیال تھا کہ تقسیم ہند ہندو مسلم تعلقات کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوئی، البتہ 30% کا خیال تھا تقسیم ہند بہتر فیصلہ تھا۔
70% سروے کیے گئے لوگوں کی دوستی اپنی ذات (Cast) اور مذہب کے لوگوں کے ساتھ ہے۔
نتائج کی تفصیل بہت سے چشم کشاموجودہ رجحانات اور رویوں کی عکاس ہے، یہی رجحانات اور رویے روزمرہ سیاسی، مذہبی، انتظامی و کاروباری اور معاشرتی زندگی کو تشکیل کر رہے ہیں۔ ان رویوں میں اقلیتوں کے بارے میں اکثریتی رجحان سیکولر نہیں بلکہ مذہب کی چھاپ اور شناخت پر مبنی ہے۔ یہ رویے اقلیتوں کے لیے پریشان کن ہیں، بالخصوص جب ایک ایسی سیاسی جماعت حکومت میں ہو جو مذہبی شناخت اور ایسے نیشنلزم کی حامی ہوں جس میں مذہبی شناخت اور اس سے جڑی زبان بنیادی قدر سمجھی جائے۔
اس تناظر میں یہ سمجھنا بھی آسان ہے کہ گجرات سے گزشتہ سال ہوئے دہلی کے مذہبی فسادات تک میں پولیس خاموش تماشائی کیوں رہی، بلکہ اکثر موقعوں پر بلوائیوں کا ساتھ دینے کے باوجود ان سے باز پرس نہیں ہوئی۔ ہندو بلوائیوں کا بعد میں گجرات اور دہلی سمیت تمام بلوؤں میں ہمدردانہ پولیسنگ، تفتیشی اور عدالتی نظام سے صاف چھوٹ جانا انھی رویوں کا شاخسانہ ہے۔ نصاب کی کتابوں میں ہندو نیشنلزم کی باقاعدہ تعلیم اور ترویج، حکومتی ملازمتوں اور اداروں، حتیٰ کہ اعلی عدلیہ میں ہندو شناخت اور رویوں کے حامیوں کی سالہا سال سے بھرتیاں نظام کو اب اس مقام پرلے آئی ہیں کہ اکثریت کا سکہ ہر جگہ دھڑلے سے چلنے لگا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ لاکھ سر پٹخیں کہ بھارت میں جموں و کشمیر ایک عقوبت خانہ بن چکا ہے، انسانی حقوق پیروں تلے روندے جا رہے ہیں، ملک میں اقلیتیں اور نچلی ذات کے لوگ خوف و ہراس اور دوہرے سلوک کا شکار ہیں مگر کون سنتا ہے؟ بی جے پی، اس کی نظریاتی پارٹیاں اور مددگار میڈیا اب ملک کو سیکولر بھارت کی بجائے ہندو نیشنلزم کی شناخت دینے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں، اکیڈمک، اختلاف رائے کے حامی دانشوروں اور بائیں بازو کی آوازیں کمزور پڑ رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی بھارت کی معاشی، سیاسی اور دفاعی افادیت اس قدر نظر آ رہی ہے کہ باقی سب کچھ اوجھل ہو گیا ہے۔ کشمیریوں اور پاکستان کو اب ایک نئی طرح کے بھارت کا سامنا ہے!