ایک اور یوم آزادی، مبارک سلامت اور وعدے وعید کا ایک اور دن، ماہ و سال کا حساب کریں تو 74 سال ہو گئے آزادی حاصل کیے ہوئے۔ مگر ہر گزرتے سال کچھ نئے پرانے سوال اور ان کے ادھورے جوابوں سے امید کا دامن ڈھیلا سا پڑ جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بے شمار خوش باش افراد اسی ملک کی عافیت کے سائے میں بیٹھ کر ملک بننے کی غائیت اور ضرورت پر ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ دل میں بعض اوقات خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ کچھ اور دور یہ کوڑی لینے اترپردیش یا مقبوضہ جموں و کشمیر تک ہو آتے تو کم از کم کوڑی اور کوڑے کا فرق بھی لگے ہاتھوں خود ہی سمجھ لیتے۔
ان سوشل میڈیائی دانشوروں کی جگالی اپنی جگہ، مگر سنجیدہ حلقے بہت عرصے سے گوش گذار ہیں کہ ملک کی سیاست، معیشت اور گورننس جس ڈگر پر چل رہی ہے اس کے نتائج اب تک قابل اطمینان نکلے ہیں اور نہ ہی ان گھسے پٹے فارمولوں سے آگے چل کر کچھ الگ برآمد ہو سکے گا۔
الیکشن سسٹم کو ہی لیجیے، ہر الیکشن کے بعد نتائج پر دھاندلی کا شور برپا ہوتا ہے۔ شکست تسلیم کرنے کے سیاسی کلچر کا رواج اس لیے نہیں کہ موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام میں جگہ جگہ انتظامی شگاف اور بداعتمادی کے روڑے اٹکے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں الیکشن نظام کی اصلاحات کی بات تو ہوتی ہے مگر با معنی اقدامات دور دور تک نظر نہیں آتے۔
جو اقدامات نظر آتے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کو مزید دور لے جانے کا سبب ہو سکتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی پارلیمنٹ میں نمائش ہو چکی مگر اس پر الیکشن کمیشن اور اپوزیشن جماعتوں کے شدید تحفظات ہیں۔ ووٹنگ مشین انتخابی نظام کا ایک کل پرزہ ہے مگر اس پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت اور مکالمے کا اہتمام ہوا نہ ضرورت سمجھی گئی، کچھ یہی عالم انتخابی اصلاحات کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آئینی فرائض پر بھی مشاورت کا ماحول نہیں بن سکا۔ الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی مدت ختم ہو چکی مگر بر وقت مشاورت کا عمل نہ شروع ہوا۔
سنجیدہ معاملات سے بے اعتنائی اور باہم الزام تراشی کی وجہ سے پاکستانی ریاست، سیاست اور معیشت کے معاملات یا تو جوں کے توں چلے آ رہے ہیں یا ان میں بگاڑ کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہوتی جا رہی ہے، بگاڑ اور رفتار اس قدر تیز کہ اب سنبھالے بھی سنبھالنا مشکل ہے۔ یوں تو بنیادی یعنی Structural فالٹ لائنز کئی ہیں مگر چند ایک کا ذکر آج کے یوم آزادی کے حوالے سے کیے لیتے ہیں۔
ملک کی آئیڈیالوجی کے بارے میں قائد اعظم کی پاکستان بننے کے بعد کی دو ایک اہم ترین تقاریر کو اپنے اپنے معنی پہنانے کی روش نے ابہام کو بڑھایا ہے۔ ریاست کی شناخت مذہبی ہو گی یا ریاست مذہب کے بارے میں نیوٹرل ہوگی، بحث ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اقلیتوں کے حقوق کہنے اور آئین میں درج کرنے کی حد تک ٹھیک ہیں مگر یہ ایسے مجموعی ماحول کے متقاضی بھی ہیں جہاں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے جان و مال کی حفاظت قدرتی اور قانونی انداز میں ہو، نہ کہ ہر نئے واقعے کے بعد صفائیوں اور وضاحتوں کی ضرورت پڑے۔
نا پختہ سیاسی کلچر اور گورننس کا نظام۔ سول ملٹری تعلقات کی کشاکش کسی نہ کسی شکل میں ملکی معاملات پر اثرانداز رہی ہے۔ سیاسی عمل کئی بار تعطل کا شکار ہوا، جب بظاہر سیاسی طاقتیں ہی فیصلہ ساز ہوئیں تب بھی شکایتوں اور اندیشوں کے دفتر بند نہیں ہوئے۔ بے یقینی کے مارے اس سیاسی نظام میں دو تین بڑی سیاسی پارٹیاں منظر نامے پر حاوی ہوئیں۔ یہ پارٹیاں خاندانی اور ذاتی وفاداریوں کے کلچر پر استوار ہیں نہ کہ اندرون جماعت سیاسی عمل اور شفافیت کی بنیاد پر۔ ایسے میں وفاداریوں کی حفاظت اور بولیاں لگنے کے کیا کیا مناظر سامنے نہ آئے۔